اول: غیر مسلم کے ہاں کام کرنا
غیر مسلم کے ہاں ملازمت کرنا، بشرطیکہ اس کی ذاتی خدمت نہ ہو، جائز ہے۔
جیسا کہ ’’الموسوعة الفقهية‘‘ (جلد 19، صفحہ 45) میں ہے:
’’فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کافر مسلمان کی خدمت کر سکتا ہے۔ اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ مسلمان کافر کے پاس کسی معین عمل کے لیے اجرت پر کام کر سکتا ہے، جیسے کپڑا سینا، مکان بنانا، کھیتی باڑی کرنا وغیرہ؛ کیونکہ علی رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی کے لیے پانی کھینچنے کا کام کیا اور ہر ڈول کے بدلے ایک کھجور لی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے انہیں منع نہیں فرمایا۔ نیز یہ کہ اجیر (مزدور) جب کسی عمل کی ذمے داری لیتا ہے تو وہ یہ کام خود یا کسی اور سے بھی کروا سکتا ہے۔
لیکن فقہاء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو ایسے کام کے لیے اجرت پر نہیں دے سکتا جو اس کے لیے شرعاً جائز نہیں، جیسے شراب کشید کرنا، خنزیر چَرانا وغیرہ۔‘‘ ختم شد۔
اس کے ساتھ یہ شرط بھی ہے کہ وہ اسلامی احکام کی پابندی کرے، جیسے کافروں کو سلام کرنا، ان کے سلام کا جواب دینا، تعزیت کرنا اور مبارکباد دینا وغیرہ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
’’ایک شخص کفار کے ساتھ کام کرتا ہے، آپ اسے کیا نصیحت کریں گے؟‘‘
تو آپ نے جواب دیا:
’’ہم اس بھائی کو جو کفار کے ساتھ کام کر رہا ہے، نصیحت کرتے ہیں کہ وہ ایسی ملازمت تلاش کرے جہاں اللہ اور اس کے رسول کے دشمن، یعنی غیر مسلم نہ ہوں۔ اگر ایسا ممکن ہو تو یہی بہتر ہے۔ لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اس پر کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ وہ اپنے کام میں مشغول ہیں، اور یہ اپنے کام میں۔
البتہ یہ شرط ہے کہ اس کے دل میں ان کے لیے محبت، دوستی اور قربت نہ ہو، اور وہ شریعت کے ان احکام پر عمل کرے جو ان سے سلام و کلام، سلام کا جواب، جنازے میں شرکت، ان کے تہواروں میں شمولیت اور تہنیت وغیرہ سے متعلق ہیں۔ لہٰذا نہ وہ ان کے جنازے میں شریک ہو، نہ وہاں حاضر ہو، نہ ان کے تہواروں میں شریک ہو، اور نہ ہی ان پر تہنیت پیش کرے۔‘‘ ختم شد
فتاویٰ ابن عثیمین: ( جلد 3، صفحہ 39)
دوم: مرد و زن کے مخلوط ماحول میں ملازمت کی ممانعت
مخلوط ماحول میں کام کرنا اصولی طور پر ناجائز ہے، کیونکہ اس میں کئی خرابیاں اور شرعی قباحتیں پائی جاتی ہیں، جیسا کہ اس کی وضاحت سوال نمبر: (1200)، (50398)، (106815) کے جوابات میں کی جا چکی ہے۔
اور اگر یہ اختلاط کفار کے ساتھ ہو تو خرابی مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ ان کے درمیان بے حیائی اور ناجائز تعلقات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں نیز اس پر گفتگو کثرت سے ہوتی ہے۔ اور اگر ان کے دینی امور اور عبادات پر گفتگو طویل عرصے تک ہو، تو یہ واقعتاً ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ اس لیے اپنی حفاظت کریں، ایسے کام سے دور رہیں، اور کوئی ایسا کام تلاش کریں جس میں اختلاط نہ ہو؛ کیونکہ دین کی حفاظت مال کی حفاظت پر مقدم ہے۔
کفار کو اسلام کی دعوت دینے کے حکم کی وضاحت کے لیے دیکھیے: سوال نمبر: (177381)
واللہ اعلم