جس شخص نے کسی کو خریداری کا وکیل بنایا اور وکیل نے اس وکالت کے مطابق خریداری کی، تو معاہدہ درست ہو گا، چاہے وکیل نے صراحت کے ساتھ یہ کہا ہو کہ وہ اپنے موکل کے لیے خریداری کر رہا ہے یا نہ کہا ہو، اور چاہے اس نے خریداری کو اپنے نام پر رکھا ہو اور خود کو موکل کی جگہ ظاہر کیا ہو۔
ظاہر یہی ہے کہ اس معاملے میں وکیل نے رسمی کارروائی کو آسان بنانے کے لیے معاہدے کو موکل کے نام پر رکھا اور اس کی طرف سے دستخط کیے، تاکہ معاہدے کے حقوق براہِ راست موکل سے متعلق ہوں، جیسے عیب کی صورت میں واپسی، مرمت، وغیرہ۔ ورنہ دو ممکنہ طریقے تھے:
- معاہدہ وکیل کے نام پر ہوتا:
- یہ شرعی طور پر درست ہے، لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ معاہدے کے تمام حقوق بظاہر وکیل کے ساتھ متعلق ہو جاتے۔
- اس صورت میں موکل معاہدے کے حقوق جیسے عیب کی صورت میں واپسی یا مرمت میں براہِ راست شامل نہ ہو سکتا تھا، بلکہ اسے ہر چیز کے لیے وکیل کے ذریعے کام کرنا پڑتا، جو بعض اوقات اس کے اور وکیل دونوں کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔
- وکیل صراحت کے ساتھ بیان کرتا کہ وہ اپنے موکل کے لیے خرید رہا ہے:
- اس صورت میں اس کا دستخط قابلِ قبول نہ ہوتا، اور اسے ہر معاہدے میں وکالت نامہ پیش کرنا پڑتا۔
- کئی دکاندار اور کمپنیاں ایسے وکالت نامے کو قبول کرنے میں دلچسپی نہیں لیتیں، بلکہ وہ وکیل سے یہی کہتے کہ وہ معاہدہ اپنے نام پر کرے اور اپنے موکل کی طرف سے دستخط کرے۔
نتیجہ:
چونکہ وکیل موکل کے حکم سے کام کر رہا تھا، اس لیے یہ معاہدہ شرعاً درست ہے۔ تاہم، اس میں یہ غلطی ہے کہ وکیل نے موکل کے نام سے دستخط کیے۔ درست طریقہ یہ تھا کہ وہ واضح طور پر یہ بیان کرتا کہ وہ خریداری موکل کے لیے کر رہا ہے، اپنی وکالت کی حیثیت کو ظاہر کرتا، اپنی شناختی دستاویز پیش کرتا اور وکالت نامہ دکھاتا۔
جمہور فقہاء کے نزدیک وکیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے تصرفات کرے جیسے وہ خود اصل فریق ہو، اور وہ صراحتاً وکالت کا ذکر کیے بغیر بھی خرید و فروخت کر سکتا ہے، اور خریداری در حقیقت اس کے موکل کے لیے شمار ہو گی، البتہ بعض فقہاء کے نزدیک ایسی صورت میں وکیل ضامن ہو گا، سوائے بعض خاص معاہدات جیسے نکاح کے، جہاں موکل کا نام ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے۔
صاحب الفروع کہتے ہیں کہ: ’’ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جو شخص کسی کو خرید و فروخت یا کرائے پر لینے کے لیے وکیل بنائے، اور وہ وکیل معاہدے میں اپنے موکل کا ذکر نہ کرے، تو وہ ضامن ہو گا۔ اور اگر اس نے موکل کا ذکر کر دیا تو اس میں فقہاء کے درمیان دو رائے ہیں، اور ظاہر یہی ہے کہ حنبلی فقہ کے مطابق وہ ضامن ہو گا۔ ‘‘ختم شد
"الفروع" (7/52)
واللہ اعلم