27

وکیل نے خریداری کا معاہدہ موکل کے نام پر کیا اور اس کی طرف سے دستخط خود کیے

سوال: 299918

میں نے کسی شخص کو اپنی طرف سے عام وکالت نامہ دیا، اور میرے وکیل نے مختلف کمپنیوں کے ساتھ ایئر کنڈیشنرز اور فریجز کی قسطوں پر فروخت کے معاہدے کیے۔ وکیل نے معاہدے میں میرا مکمل نام لکھا  لیکن دستخط اپنے کیے، حالانکہ یہ دستخط میرے نہیں بلکہ میرے وکیل کے ہیں۔ اس معاہدے میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ دستخط کرنے والا میرا وکیل ہے، معاہدے میں وکیل کا شناختی کارڈ وغیرہ درج نہیں ہے، اور نہ ہی اس معاہدے میں وکالت نامے کی کوئی نقل فراہم کی گئی، بلکہ صرف شناختی کارڈ نمبر اور میرا کمپنی کا ریکارڈ  درج ہے۔ تو کیا ایسے میں یہ معاہدہ درست ہے؟

کیا وکیل کے لیے لازم تھا کہ وہ معاہدے پر دستخط کرتے وقت اپنی حیثیت (وکیل ہونے) کا ذکر کرے اور وکالت نامے کا نمبر اور اپنی شناختی دستاویزات کا ریکارڈ  درج کرے؟

اور کیا معاہدے پر عمل کرنے والی کمپنی کے لیے ضروری تھا کہ وہ وکالت نامے اور وکیل کی شناختی دستاویز کی کاپی حاصل کرے، خاص طور پر جب کہ میرا دستخط میرے وکیل کے دستخط سے بالکل مختلف بھی ہے، چاہے وہ چیمبر آف کامرس میں ہو یا بینک میں؟

تو سوال یہ ہے کہ: کیا میرے وکیل کے اس عمل سے یہ معاہدے درست ہوں گے یا باطل، اور کیا معاہدہ کرنے والی کمپنی کا وکیل کی شناخت کا کوئی ثبوت نہ لینا معاہدے پر اثر انداز ہو گا؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

جس شخص نے کسی کو خریداری کا وکیل بنایا اور وکیل نے اس وکالت کے مطابق خریداری کی، تو معاہدہ درست ہو گا، چاہے وکیل نے صراحت کے ساتھ یہ کہا ہو کہ وہ اپنے موکل کے لیے خریداری کر رہا ہے یا نہ کہا ہو، اور چاہے اس نے خریداری کو اپنے نام پر رکھا ہو اور خود کو موکل کی جگہ ظاہر کیا ہو۔

ظاہر یہی ہے کہ اس معاملے میں وکیل نے رسمی کارروائی کو آسان بنانے کے لیے معاہدے کو موکل کے نام پر رکھا اور اس کی طرف سے دستخط کیے، تاکہ معاہدے کے حقوق براہِ راست موکل سے متعلق ہوں، جیسے عیب کی صورت میں واپسی، مرمت، وغیرہ۔ ورنہ دو ممکنہ طریقے تھے:

  1. معاہدہ وکیل کے نام پر ہوتا:
    • یہ شرعی طور پر درست ہے، لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ معاہدے کے تمام حقوق بظاہر وکیل کے ساتھ متعلق ہو جاتے۔
    • اس صورت میں موکل معاہدے کے حقوق جیسے عیب کی صورت میں واپسی یا مرمت میں براہِ راست شامل نہ ہو سکتا تھا، بلکہ اسے ہر چیز کے لیے وکیل کے ذریعے کام کرنا پڑتا، جو بعض اوقات اس کے اور وکیل دونوں کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔
  2. وکیل صراحت کے ساتھ بیان کرتا کہ وہ اپنے موکل کے لیے خرید رہا ہے:
    • اس صورت میں اس کا دستخط قابلِ قبول نہ ہوتا، اور اسے ہر معاہدے میں وکالت نامہ پیش کرنا پڑتا۔
    • کئی دکاندار اور کمپنیاں ایسے وکالت نامے کو قبول کرنے میں دلچسپی نہیں لیتیں، بلکہ وہ وکیل سے یہی کہتے کہ وہ معاہدہ اپنے نام پر کرے اور اپنے موکل کی طرف سے دستخط کرے۔

نتیجہ:
چونکہ وکیل موکل کے حکم سے کام کر رہا تھا، اس لیے یہ معاہدہ شرعاً درست ہے۔ تاہم، اس میں یہ غلطی ہے کہ وکیل نے موکل کے نام سے دستخط کیے۔ درست طریقہ یہ تھا کہ وہ واضح طور پر یہ بیان کرتا کہ وہ خریداری موکل کے لیے کر رہا ہے، اپنی وکالت کی حیثیت کو ظاہر کرتا، اپنی شناختی دستاویز پیش کرتا اور وکالت نامہ دکھاتا۔

جمہور فقہاء کے نزدیک وکیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے تصرفات کرے جیسے وہ خود اصل فریق ہو، اور وہ صراحتاً وکالت کا ذکر کیے بغیر بھی خرید و فروخت کر سکتا ہے، اور خریداری در حقیقت اس کے موکل کے لیے شمار ہو گی، البتہ بعض فقہاء کے نزدیک ایسی صورت میں وکیل ضامن ہو گا، سوائے بعض خاص معاہدات جیسے نکاح کے، جہاں موکل کا نام ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے۔

صاحب الفروع کہتے ہیں کہ: ’’ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جو شخص کسی کو خرید و فروخت یا کرائے پر لینے کے لیے وکیل بنائے، اور وہ وکیل معاہدے میں اپنے موکل کا ذکر نہ کرے، تو وہ ضامن ہو گا۔ اور اگر اس نے موکل کا ذکر کر دیا تو اس میں فقہاء کے درمیان دو رائے  ہیں، اور ظاہر یہی ہے کہ حنبلی فقہ کے مطابق وہ ضامن ہو گا۔ ‘‘ختم شد
"الفروع"   (7/52)

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android