جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اكثر اوقات اسلامى ترانے اور نظميں سننا

67925

تاریخ اشاعت : 29-10-2007

مشاہدات : 7752

سوال

ميں اتنے گانے سنتى تھى كہ مجھے گانے ياد ہو گئے، ليكن الحمد للہ نو برس سے ميں نے گانے سننے بند كر ديے ہيں، ليكن اب مجھے ايك اور مشكل درپيش ہے كہ مجھے اسلامى نظميں اور ترانے بہت پسند ہيں، اور ميرا اكثر وقت اسى ميں گزر جاتا ہے، تو كيا اس ميں مجھ پر كوئى گناہ تو نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

موسيقى پر مشتمل گانے سننے، يا محبت و عشق اور شہوت انگيز كلمت پر مشتمل گانے سننے كى حرمت ميں كوئى شك و شبہ نہيں، اس كى حرمت كے بہت سارے دلائل ملتے ہيں، آپ كو ان دلائل كى تفصيل سوال نمبر ( 5000 ) اور ( 20406 ) كے جوابات ميں مل سكتى ہيں، آپ اس كا مطالعہ كر ليں.

اس پر ہم اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو گانوں كى سماعت ترك كرنے كى توفيق بخشى اور انہيں آپ كے دل سے نكال باہر كيا.

دوم:

حكت اور پند و نصائح پر مشتمل، اور خير و بھلائى كى طرف دعوت دينے والے، اور مكارم اخلاق سے پر اسلامى نظميں اور ترانے و اشعار سننے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں موسيقى نہ ہو، اور نہ ہى ايسى آواز پر مشتمل ہو جو فتنہ پيدا كرے، اور نہ ہى حرام كام پر ابھارے، اور يہ كثرت سے نہ سنے جائيں.

اسلامى ترانوں اور نظموں كے متعلق مستقل فتوى كميٹى نے ايك تفصيلى فتوى جارى كيا ہے جسے ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں:

" موجودہ شكل ميں پائے جانے والے گانوں كى حرمت كے متعلق آپ نے جو حكم لگايا ہے اس ميں آپ سچے ہيں، كيونكہ يہ گانے گرى اور ساقط قسم كى كلام پر مشتمل ہوتے ہيں، جن ميں كوئى خير نہيں، بلكہ اس ميں لہو اور جنسى خواہشات كو ابھار ملتا ہے، اور اسے سننے والا شخص شر ميں مبتلا ہو جاتا ہے، اللہ تعالى ہميں اور آپ كو اپنى رضا و خوشنودى كے عمل كرنے كى توفيق بخشے.

آپ كے ليے جائز ہے كہ آپ ان گانوں كے عوض ميں اسلامى نظميں اور ترانے سن ليں، جو حكمت اور پند و نصائح اور عبرت پر مشتمل ہوں، اور دينى غيرت و حميت كو ابھاريں، اور اسلامى خيالات پيدا كريں، اور شر اور اس كے اسباب سے نفرت دلائيں، تا كہ اسلامى ترانے اور نظميں پڑھنے اور سننے والے كو اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى طرف بلائے، اور اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى اور اس كى حدود سے تجاوز نفرت پيدا كر كے اس كى شريعت اور جھاد فى سبيل اللہ كى پناہ كى طرف لے جائے.

ليكن وہ ان نظموں اور ترانے كى سماعت كو اپنى عادت نہ بنا لے كہ وہ مسلسل اسے ہى سنتا رہے، بلكہ وہ انہيں مختلف مواقع اور وقتا فوقتا سنے جب ضرورت پيش آئے مثلا شادى بياہ كے موقع پر، يا پھر جہاد كے سفر كے موقع وغيرہ پر، اور نفس كو خير و بھلائى كے كاموں پر ابھارنے كے وقت، اور جب نفس كسى شر و برائى پر آمادہ ہو رہا ہو اس وقت اسے اس شر سے نفرت دلانے اور روكنے كے ليے.

ليكن اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز تو يہ ہے كہ وہ قرآن مجيد كى تلاوت كرے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ دعائيں اور اذكار پڑھ لے، كيونكہ نفس كے ليے يہ زيادہ پاكيزہ اور طاہر ہے، اور اس ميں ہى اطمنان قلب اور شرح صدر ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ نے بہتر اور اچھى ترين كلام نازل كى ہے، جو ايسى كتاب ہے كہ آپس ميں ملتى جلتى ہے، بار بار دہرائى ہوئى آيتوں كى ہے، جس سے ان لوگوں كے رونگٹے كھڑے جاتے ہيں جو اپنے رب سے ڈرتے ہيں، پھر ان كى جسم نرم پڑ جاتے ہيں، اور دل اللہ تعالى كے ذكر كى طرف مائل ہو جاتے ہيں، يہ اللہ كى ہدايت ہے جسے چاہے اللہ تعالى ہدايت ديتا ہے، اور جس كو اللہ تعالى گمراہ كر دے اسے كوئى بھى ہدايت دينے والا نہيں الزمر ( 23 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اسطرح ہے:

جو لوگ ايماندار ہيں ان كے دل اللہ تعالى كے ذكر اور ياد سے مطمئن ہوتے ہيں، خبردار اللہ تعالى كے ذكر سے ہى دلوں كو اطمنان حاصل ہوتا ہے جو لوگ ايمان لائے اور اعمال صالحہ كيے ان كے ليے خوشخبرى ہے اور ان بہتر ٹھكانا ہے الرعد ( 28 - 29 ).

صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كى حالت اور عادت تو يہ تھى كہ وہ كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو حفظ كرتے اور اس پر عمل كرتے، اور اس كے ساتھ ساتھ مختلف مواقع مثلا خندق كھودتے وقت اور مسجد بناتے وقت، اور ميدان جہاد كى طرف جاتے ہوئے اسلامى اشعار بھى پڑھا كرتے تھے، ليكن انہوں نے اسے اپنى علامت اورشعار نہيں بنايا تھا، كہ يہى ان كا اہم كام ہو، اور وہ اسى كا خيال كريں، ليكن يہ چيز اس ميں شامل تھى جس سے وہ راحت حاصل كرتے، اور اپنے جذبات ابھارتے تھے.

رہا ڈھول اور طبل اور دوسرے گانے بجانے كے آلات تو ان نظموں اور اشعار ميں ان آلات ميں سے كسى بھى آلہ كا استعمال جائز نہيں، كيونكہ نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اور نہ ہى صحابہ كرام نے اس پر عمل كيا.

اللہ تعالى ہى سيدھى راہ كى راہنمائى كرنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 532 ).

سوم:

آپ كو كثرت كے ساتھ اللہ كا ذكر، اور كثرت سے قرآن كى تلاوت كرنى چاہيے، اور آپ اپنے ليے روزانہ حفظ اور مراجعہ كے ليے كچھ حصہ مقرر كر ليں، اور اس كے ساتھ ساتھ علمى تقارير اور درس اور دعوتى ليكچر سننے كى عادت بنائيں، يہ اسلامى نظموں كو سننے ميں كمى كا بہترين وسيلہ ثابت ہو گا، اور پھر آپ وقت بھى مفيد اور نفع مند اشياء ميں بسر ہوگا.

افسوس والى بات تو يہ ہے كہ جو شخص نظميں اور ترانے كثرت سے سنتا ہے، اس كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت كرنا بوجھل بن جاتا ہے، بلكہ تلاوت سننى مشكل ہو جاتى ہے، اور يہ ايسا نقصان ہے جس سے صرف نظر نہيں كى جا سكتى، اور اگر اس كا كوئى نقصان اور نہ بھى ہو تو يہى نقصان كافى ہے كہ اس طرح انسان اجر عظيم سے محروم ہو جاتا ہے، جو اہل ايمان كے ليے ان نظموں اور اشعار كو سننے سے روكنے كے ليے كافى ہے.

يہ تو معلوم ہى ہے كہ مومن شخص اگر ايك گھنٹہ يا گھڑى قرآن مجيد كى تلاوت ميں مشغول ہو تو اس كے ليے كئى ہزار نيكياں لكھى جاتى ہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى قرآن مجيد كا ايك حرف پڑھا تو اسے ايك نيكى ملتى ہے، اور نيكى دس گناہ ہے، ميں يہ نہيں كہتا كہ الم ايك حرف ہے، بلكہ الف ايك حرف ہے، اور لام ايك حرف ہے، اور ميم ايك حرف ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2910 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك گھنٹہ تقريبا بيس صفحے قرآن مجيد كى تلاوت كے ليے كافى ہے، جن ميں نوہزار سے كم حرف نہيں ہيں.

تو پھر كوئى مسلمان انسان قرآن مجيد كى تلاوت چھوڑ كر نظميں اور ترانے سننے ميں كس طرح مشغول ہو سكتا ہے ؟ !

اس ليے آپ ان نظموں اور ترانوں كى سماعت ميں حتى الامكان كمى كرنے كى كوشش كريں، حتى كہ آپ صرف شادى بياہ اور عيد كے موقع پر ہى انہيں سنا كريں، اور وقت كو غنيمت جانيں، اور درجات و نيكياں حاصل كريں، اللہ تعالى كے حكم سے عنقريب آپ كو قرآن مجيد كى تلاوت كى لذت اور اطاعت و فرمانبردارى كى انيست محسوس كرينگى، اور آپ كو رحمن و رحيم كى كلام كے ساتھ مٹھاس محسوس ہو گى.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو اپنى خوشنودى و رضا كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب