مخلوق کی طرف ملکیت اور تدبیر کی نسبت کرنا

سوال: 48980

کیا مخلوق کی طرف "ملکیت" (مالک ہونا) اور "تدبیر" (نظم و نسق چلانا) کی نسبت درست ہے، حالانکہ یہ ربوبیت کے کاموں سے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار ضروری ہے؟

جواب کا خلاصہ

مخلوق کی طرف ملکیت اور تدبیر کی نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ ایک محدود اور جزوی نوعیت کی ملکیت و تدبیر ہوتی ہے، جبکہ ہر چیز پر محیط مکمل اور ہمہ گیر ملکیت و تدبیر صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔

جواب کا متن

اللہ تعالیٰ کو ملکیت میں واحد ماننا واجب ہے

مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو منفرد مالک تسلیم کرے اور یہ عقیدہ رکھے کہ مخلوقات کا حقیقی مالک صرف وہی ہے جس نے انہیں پیدا کیا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ترجمہ: اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اللہ ہی کے لیے ہے ۔[آل عمران: 189]
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ ترجمہ: کہہ دے: ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے؟ [المؤمنون: 88]

البتہ قرآنِ مجید میں بعض مواقع پر اللہ تعالی کے سوا دوسروں کے لیے بھی ملکیت کی نسبت آئی ہے، جیسے فرمانِ باری تعالی ہے: إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ترجمہ: مگر اپنی بیویوں یا ان (لونڈیوں) کے جن کے وہ مالک ہیں، تو ان پر کوئی ملامت نہیں۔ [المؤمنون: 6] یہاں آقا کی طرف لونڈی کی ملکیت کی نسبت اللہ تعالی نے خود فرمائی ہے۔

ایک اور جگہ پر فرمایا: أَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَفَاتِحَهُ ترجمہ: یا تم جن کی چابیوں کے مالک ہو۔[النور: 61] یہاں چابیوں کی ملکیت کی نسبت لوگوں کی طرف اللہ تعالی نے فرمائی ہے۔

تو قرآن کریم میں مذکور یہ ملکیت ؛اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے کئی پہلوؤں سے مختلف ہوتی ہے:

  1. مخلوق کی ملکیت محدود ہوتی ہے اور صرف ان چیزوں تک محدود ہوتی ہے جو اس مخلوق کے قبضے میں ہوں؛ انسان صرف اپنے زیر اختیار کی چیزوں کا مالک ہوتا ہے، دوسروں کی چیزوں کا نہیں۔
  2. یہ ملکیت اپنی نوعیت میں بھی ناقص ہوتی ہے؛ انسان کو اپنی ملکیت میں مکمل تصرف کی آزادی حاصل نہیں، بلکہ وہ شریعت کی اجازت کا پابند ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی اپنے مال کو جلا دینا چاہے یا کسی جانور کو ایذا دینا چاہے، تو شریعت اسے اس کی اجازت نہیں دیتی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت کامل، مطلق اور ہر چیز پر حاوی ہے؛ وہ جو چاہے کرے، اس پر کوئی روک ٹوک نہیں۔

اللہ تعالیٰ کو منفرد مدبر ماننا لازم ہے

اللہ تعالیٰ کو واحد مدبر ماننے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا عقیدہ ہو کہ کائنات کا نظام صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اور وہی حقیقی طور پر تمام امور کا انتظام کرتا ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (31) فَذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ ترجمہ: پوچھو: تمہیں آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے؟ اور کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے؟ اور کون زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ، تو کہو: کیا پھر تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے؟ یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے، پھر حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کیا باقی رہتا ہے؟ تو تم کہاں بہکائے جا رہے ہو ؟[ یونس: 31]
جبکہ انسان کی تدبیر صرف اپنے دائرۂ اختیار تک محدود ہوتی ہے، اور وہ بھی شریعت کے دائرے میں رہ کر ہوتی ہے۔

اس بنا پر:

مخلوق کی طرف ملکیت اور تدبیر کی نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ اس بات کا عقیدہ رکھا جائے کہ یہ محدود، جزوی اور مشروط نوعیت کی ملکیت و تدبیر ہے، جبکہ کائنات کی مکمل اور ہمہ گیر ملکیت و تدبیر صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔

واللہ اعلم

مراجع:
القول المفید، جلد 1، صفحہ 13

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android