جوا کبیرہ گناہ ہے اس کی کیا دلیل ہے؟

سوال: 370655

قمار (جُوا) حرام ہے، جیسا کہ قرآن و حدیث میں اس کا ذکر آیا ہے۔ لیکن اسے کبیرہ گناہوں میں شامل کر کے اس کی برابری زنا، سود اور دیگر شدید گناہوں سے کیوں کی جاتی ہے، حالانکہ قرآن میں صراحت نہیں کہ یہ کبیرہ گناہ ہے؟ کیا اس کی کوئی معتبر دلیل موجود ہے؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

اہلِ علم کے نزدیک قمار (جُوا) کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔

ائمۂ سلف کی تصریحات:

1- امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب الکبائر میں لکھتے ہیں:

’’ کبیرہ نمبر 20: قمار (جُوا) اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ، إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنتَهُونَ
ترجمہ:  ’’اے ایمان والو! بے شک شراب، جُوا، بتوں کے تھان اور پانسے، سب گندے (ناپاک) کام ہیں شیطان کے ہتھکنڈوں میں سے، سو ان سے بچو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔  شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جُوا کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے، اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے، تو کیا تم (اب بھی) باز آ جاؤ گے؟‘‘ [المائدہ: 90-91]
قرآن کریم میں مذکور ’’ ميسر ‘‘ سے مراد ہر طرح کا جوّا ہے، چاہے وہ نرد (چوپڑ)، شطرنج، گول موتیوں، چھوٹے ہڈیوں کے ٹکڑوں، اخروٹ، انڈے، کنکریوں یا کسی اور چیز کے ذریعے کھیلا جائے۔ یہ لوگوں کے مال کو باطل طریقے سے کھانے میں شامل ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں منع فرمایا: وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ ترجمہ: ’’اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق مت کھاؤ‘‘ (البقرۃ: 188)۔

اسی طرح جوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں بھی شامل ہے: ’’بے شک کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں، تو قیامت کے دن ان کے لیے آگ ہو گی‘‘۔  اور صحیح بخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے: ’’جو شخص اپنے ساتھی سے کہے: آؤ، میں تم سے جوّا کھیلوں، تو اسے صدقہ دینا ہو گا‘‘۔ جب محض ایسا کہنا کفارہ یا صدقے کا سبب بن جائے، تو اندازہ کیجیے کہ خود جوّا کھیلنے کا کیا انجام ہو گا! ‘‘

یہ اقتباس امام ذہبی کی کتاب "الکبائر" (ص: 88) سے ماخوذ ہے۔

اور ابن حجر المکی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الزواجر عن اقتراف الكبائر" (2/328) میں فرمایا:

’’(گناہ کبیرہ نمبر: 443) جوّا کھیلنا، خواہ وہ اکیلا ہو یا کسی مکروہ کھیل جیسے شطرنج، یا کسی حرام کھیل جیسے نرد کے ساتھ ہو۔‘‘

پھر انہوں نے یہی دلائل ذکر کیے اور آخر میں فرمایا:

’’تنبیہ: اس گناہ کو کبیرہ گناہ شمار کرنا قرآنِ کریم کی پہلی آیت سے بالکل واضح ہے، اور یہ بالکل ظاہر بات ہے۔‘‘ ختم شد

اس بات پر دلالت کرنے والی دلیلوں میں  ہر وہ نص بھی شامل ہے جس میں باطل طریقے سے مال کھانے کی حرمت اور اس عمل پر وعید آئی ہے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: ’’ہر وہ جسم جو حرام مال سے پلا بڑھا ہو، تو آگ ہی اس کے لائق ہے۔‘‘ اسے طبرانی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الجامع (حدیث: 4519) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی مفہوم کو ترمذی نے (حدیث: 614) حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے اس الفاظ میں روایت کیا ہے: ’’کوئی گوشت ایسا نہیں جو حرام مال سے پیدا ہوا ہو، مگر یہ کہ آگ ہی اس کے زیادہ لائق ہے۔‘‘ اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

گناہِ کبیرہ:  ایسا گناہ ہوتا ہے جس پر شرعی حد مقرر ہو، یا اس پر جہنم، لعنت یا اللہ کے غضب کی وعید آئی ہو۔

تفصیل کے لیے دیکھیں موسوعہ فقہیہ (جلد 27، صفحہ 18)۔

اور قمار (جوئے) میں بہت سی خرابیاں ہیں، جن کی وضاحت سوال نمبر: (4013) کے جواب میں بیان کی جا چکی ہے۔

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android