شو پیس کے طور پر مسجد کا ماڈل یا مجسمہ بنانے کا حکم

سوال: 278313

خوبصورتی کے لیے کسی مسجد کا ماڈل یا مجسمہ تیار کرنا کیسا ہے؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

روح نہ رکھنے والی چیزوں کے مجسمے بنانے کا اصل حکم یہ ہے کہ یہ جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی شرعی خرابی نہ پائی جائے۔ مثلاً اگر مجسمہ کسی قابلِ تعظیم چیز کا ہو، جیسے خانہ کعبہ یا مسجد، اور اسے ایسا بنانا اس کی بے ادبی کا باعث بنے، مثلاً اسے بیت الخلا میں لے جایا جائے، تو اس صورت میں اس کی ممانعت ہو گی۔ یا یہ مجسمہ جاہل لوگوں کے لیے تبرک حاصل کرنے یا اس کے گرد طواف کرنے کا ذریعہ بن جائے، تو بھی اسے بنانا ممنوع ہو گا۔

اسی وجہ سے متعدد علمی اداروں نے خانہ کعبہ کا مجسمہ بنانے کو حرام قرار دیا ہے، جیسا کہ سوال نمبر (192043) کے جواب میں اس کی وضاحت کی جا چکی ہے۔

’’اللجنة الدائمة‘‘ کے فتاویٰ، مجموعہ دوم (1/ 323) میں خانہ کعبہ اور سبز گنبد کے مجسمے "میڈل کی شکل میں" بنانے کے بارے میں ہے کہ:

’’خانہ کعبہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر بنے گنبد کا مجسمہ بنانا اور ان کی تجارت کرنا جائز نہیں؛ کیونکہ ان کی تیاری، خرید و فروخت اور عام لوگوں میں رائج ہونا بعض ایسے امور کا ذریعہ بن سکتا ہے جن سے شرعاً بچنا لازم ہے، چنانچہ ان ممنوعہ امور کے اسباب کو بند کرنا ضروری ہے۔‘‘

عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، عبد العزیز آل الشیخ، عبد اللہ بن غدیان، صالح الفوزان، بکر ابو زید۔ ‘‘ ختم شد

لہٰذا اگر مجسمہ سازی ان خرابیوں سے خالی ہو، جیسے مسجد کا مجسمہ کسی میز پر رکھ دیا جائے اور اس کی بے ادبی سے حفاظت کی جائے، اور جاہل لوگ اس سے تبرک نہ لیں، تو اصل حکم کے مطابق ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں۔

البتہ اگر اس میں اسراف یا فضول خرچی پائی جائے، تو یہ ممنوع ہو گا؛ کیونکہ ہمیں اسراف، تبذیر (فضول خرچی) اور مال ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ترجمہ: ’’اور اسراف نہ کرو، بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ [الأنعام: 141]

اور فرمایا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا • إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا
ترجمہ:  ’’اور رشتہ دار کو اس کا حق دو، اور مسکین کو اور مسافر کو بھی، اور مال کو فضول خرچی کے ساتھ نہ اڑاؤ۔ بے شک فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔‘‘[ الإسراء: 26–27]

علامہ مناوی رحمہ اللہ ’’فیض القدیر‘‘ (1/50) میں فرماتے ہیں:
’’اسراف یہ ہے کہ کسی چیز کو ایسی جگہ صرف کیا جائے جہاں اس کا صرف کرنا تو مناسب ہو، لیکن مقدار ضرورت سے زیادہ۔ اور تبذیر یہ ہے کہ کسی چیز کو وہاں صرف کیا جائے جہاں اس کا صرف کرنا سراسر نامناسب ہو۔‘‘

صحیح بخاری (2408) اور صحیح مسلم (593) میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ چیزیں حرام کی ہیں: ماں کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا، دینے سے رکنا اور خود بار بار مانگنا۔ اور اللہ نے تمہارے لیے ان باتوں کو ناپسند فرمایا: فضول باتیں کرنا، زیادہ سوال کرنا اور مال ضائع کرنا۔‘‘

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android