5

ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں اور داود علیہ السلام کو عطا کی گئی زبور کا کیا ہوا؟

سوال: 259935

کیا زبور اور ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں میں تحریف ہوئی ہے؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

اول:

اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام پر صحیفے نازل فرمائے تھے، اللہ تعالی نے ان کا تذکرہ قرآن کریم میں فرمایا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَى * صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى ترجمہ: یقیناً یہ بات اولین صحیفوں میں موجود ہے، ابراہیم اور موسی -علیہما السلام- کے صحیفوں میں۔ [الاعلی: 18- 19]

اللہ تعالی نے ان صحیفوں میں کیا کچھ بیان کیا تھا ان میں سے کچھ باتیں قرآن کریم میں بتلائی ہیں ، جیسے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَى (36) وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّى (37) أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (38) وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (39) وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى (40) ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَى ترجمہ: کیا اسے موسی کے صحیفوں میں جو کچھ موجود ہے اس کے بارے میں نہیں بتلایا گیا؟ [36]اور ابراہیم کے صحیفوں کے بارے میں جنہوں نے وفا کی [37] یہ کہ کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ [38] اور انسان کو اپنی کد و کاوش کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ [39] اور اس کی کد و کاوش کو عنقریب دیکھا جائے گا۔ [40]اور پھر اسے پورا پورا بدل دیا جائے گا۔ [النجم: 36 - 41] یہ موضوع سورت النجم کی آخری آیات تک بیان ہوا ہے، اسی طرح سورت الاعلی کی آخری آیات میں بھی ہے، جو کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔

ہم پر فرض یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کی طرف سے موسی علیہ السلام پر نازل کردہ صحیفوں پر اجمالی طور پر ایمان لائیں، اور یہ ایمان اس لیے ہو گا کہ ہمارے پاس صحیح ثابت شدہ سچی وحی میں ان کا تذکرہ موجود ہے، اور کچھ تفصیلات جو ان کے بارے میں بیان ہوئی ہیں کہ ان میں نصیحتیں اور عبرتیں بیان کی گئیں تھیں، اس کے علاوہ تفصیلات ہمیں جاننے کا مکلف نہیں بنایا گیا، نہ ہی ان کے متعلق یقینی معلومات کے لیے ہمارے پاس کوئی راستہ ہے کہ ہمیں مصدقہ تفصیلات کہیں سے مل سکیں، اگر کوئی شخص ان کی جستجو کرتا ہے تو یہ محض تکلف ہے، جب ہمارے پاس ہماری شریعت مکمل ہے تو ہمیں کسی اور چیز کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہمارے لیے ہمارا دین مکمل کر دیا ہے، اور ہمارے لیے دین اسلام کو پسندیدہ بنا لیا ہے۔

اب ہمارے پاس وحی کے ذرائع سے ایسی کوئی خبر نہیں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے کب تک باقی رہے، نہ ہی کہیں کسی معتبر اور مصدقہ ذریعے سے یہ ملتا ہے کہ کسی مسلمان کو ان صحیفوں کی تعلیمات کا علم ہو اور اسے آگے بیان کیا جا سکے۔

محسوس یہ ہوتا ہے کہ ان صحیفوں کی تعلیمات بھی عرصہ دراز پہلے مٹ چکی تھیں اور لوگوں کو ان کا علم نہیں رہا۔

بلکہ در حقیقت بنی اسرائیل کی ساری کتابوں کا معاملہ ہی ایسا ہے کہ تورات اور انجیل ان میں سے کوئی بھی قابل اعتبار اور مصدقہ نہیں ہے حتی کہ جو کتابیں آج بھی موجود ہیں ان کے بارے میں بھی یہی ہے۔ الا کہ جن چیزوں کی تصدیق شریعت مطہرہ نے کی ہے، چنانچہ شریعت کی جانب سے جن چیزوں کی تصدیق نہیں ہوئی تو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ہم نہ اس کی تصدیق کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی تکذیب کر سکتے ہیں۔

اگر یہ معاملہ بنی اسرائیل کی کتابوں کا ہے حالانکہ ان کتابوں کی تعظیم کرنے والوں کی تعداد بہت بڑی ہے، جو ان کتابوں کا خیال کرتی آئی ہے، اور جنہیں ان کتابوں کی ضرورت بھی تھی، تو ایسے میں ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں کا حال بھی بالاولی اس سے کم تر ہو گا، چنانچہ آج کل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں کی طرف منسوب لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا حکم بھی بنی اسرائیل کی صحیفوں اور کتابوں جیسا ہے، لہذا ہم ان کی نہ تو تصدیق کریں اور نہ ہی ہم ان کی تکذیب کریں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (126004) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

زبور داود علیہ السلام کی کتاب کا نام ہے، اللہ تعالی نے آپ کی طرف یہ کتاب وحی فرمائی تھی، اللہ تعالی نے اس کے بارے میں قرآن کریم میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ وَآتَيْنَا دَاوُودَ ‌زَبُورًا
ترجمہ: اور تیرا رب انہیں جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور یقیناً ہم نے کچھ انبیاء کو دیگر پر فضیلت دی ہے، اور داود کو ہم نے زبور عطا کی۔[بنی اسرائیل: 55]

اس آیت میں لفظ "زبور " اسم مفعول یعنی "مزبور" کے معنی میں جس کا مطلب ہے لکھا ہوا، مکتوب۔ "تفسیر قرطبی" (6/ 17)

علامہ الطاہر ابن عاشور کہتے ہیں:
"زبور اصل میں داود علیہ السلام کے جمع کردہ اقوال کا نام ہے، جن میں سے کچھ اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی فرمائے تھے، اور کچھ اللہ تعالی کی طرف سے الہام تھے جو کہ مختلف دعاؤں اور مناجات پر مشتمل ہیں، جنہیں آج بھی عہد نامہ قدیم یا عتیق میں "مزامیر کی کتاب" کے نام سے جانا جاتا ہے۔" ختم شد
"التحرير والتنوير"(15/ 138)

اہل علم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ داود علیہ السلام کی زبور کتاب؛ اللہ تعالی کی تعریف، اور شان الہی پر مشتمل تھی، اس میں حلال و حرام، فرائض اور حدود وغیرہ کچھ نہیں تھا۔ دیکھیں: تفسیر طبری: (14/ 625)

علامہ قرطبی کہتے ہیں:
"زبور، سیدنا داود علیہ السلام کی کتاب تھی، اس میں 150 شعریہ کلام ہیں، اور ان میں کوئی حکم، حلال و حرام وغیرہ بیان نہیں کیا گیا، بلکہ ان میں اقوال زریں، اور نصیحتیں ۔ لفظ "زبور" کا لفظی معنی کتابت ہے۔

زبور اور صحف ابراہیم کے مضامین کی بابت ایک غیر ثابت شدہ روایت میں کچھ اشارے ملتے ہیں، جیسے کہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
"میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے میں کیا بیان کیا گیا تھا؟

تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس میں سب باتیں حکمت بھری تھیں، مثلاً: اے مسلط کیے گئے مغرور بادشاہ ! میں نے تمہیں اس لیے مبعوث نہیں کیا کہ تم دنیا پہ دنیا جمع کرتے چلے جاؤ، میں نے تو تمہیں اس لیے چنا کہ تم مجھ تک مظلوم کی آہ نہ پہنچنے دو؛ کیونکہ میں مظلوم کی آہ کو کبھی مسترد نہیں کرتا، چاہے مظلوم کوئی کافر ہی کیوں نہ ہو۔

عاقل شخص جب تک اس کی عقل قائم ہو اس کی زندگی میں مختلف قسم کے اوقات ہونے چاہییں: ایک وقت میں اپنے رب سے مناجات کرے، ایک وقت میں اپنا احتساب کرے، اور ایک وقت میں اللہ تعالی کی کاریگری پر غور و فکر کرے، کچھ وقت میں اپنی کھانے پینے کی ضروریات پورے کرنے کے لیے محنت کرے ۔

عقل مند شخص پر لازم ہے کہ وہ صرف تین مقاصد کے لیے ہی سفر کرے: آخرت کی تیاری کرے لیے، تلاش معاش کے لیے، یا حلال ذرائع سے لطف اندوزی کے لیے۔

دانش مند شخص اپنے دوستوں کے بارے میں بھر پور بصیرت رکھتا ہے، اپنے کام سے کام رکھتا ہے، اور اپنی زبان پر کنٹرول رکھتا ہے۔

جو شخص اپنے کلام کو بھی اپنا عمل سمجھے تو وہ ہمیشہ با مقصد بات کرے گا۔!!

میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! تو صحفِ موسی میں کیا تھا؟

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس میں سب باتیں عبرت سے بھری ہوئی تھیں۔

مجھے اس شخص پر تعجب ہے جسے موت کا یقین بھی ہے لیکن پھر بھی وہ خوش ہے!!

اور مجھے اس شخص پر تعجب ہے جسے جہنم کا یقین ہے لیکن پھر بھی وہ کھل کھلا کر ہنستا ہے!!

اور مجھے اس شخص پر تعجب ہے جسے تقدیر کا یقین ہے لیکن پھر بھی ہر وقت دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے!!

اور مجھے اس شخص پر تعجب ہے جس نے دنیا کو دیکھا اور پھر اسے اہل دنیا سمیت قبول کر کے اسی دنیا پر مطمئن ہو گیا!!

اور مجھے اس شخص پر تعجب ہے جسے کل حساب کا یقین ہے لیکن آج وہ اس کے لیے محنت نہیں کر رہا!!"

اس حدیث کو ابن حبان: (361) وغیرہ نے روایت کیا ہے، صحیح ابن حبان کی تحقیق میں الارناؤوط نے اس کی سند کو سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ یہی موقف البانیؒ نے بھی اسے سلسلہ ضعیفہ میں اپنایا ہے۔ مزید کے لیے آپ تفسیر ابن کثیر: (2/ 472) کا مطالعہ کریں۔

ہم نے جو کچھ ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے کے متعلق بات کی ہے وہی بات ہم زبور کے بارے میں بھی کریں گے ، اس لیے کہ زبور کے آج کل وجود کے بارے میں ہمارے پاس کوئی یقینی خبر نہیں ہے۔ اور اہل کتاب کی جانب سے جو کچھ بھی ہم تک پہنچتا ہے اس کا حکم اسرائیلی روایات والا ہے ، اور اسرائیلی روایات کی تین قسمیں ہیں:

  1. مقبول اسرائیلی روایات: یہ وہ روایات ہیں جن کے صحیح ہونے کا علم ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے ہوا ہے۔
  2. مردود اسرائیلی روایات: یہ وہ روایات ہیں جن کے غلط یا جھوٹ ہونے کا علم ہو گیا ، تو ایسی روایات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی، نہ ہی اسے قبول کیا جا سکتا ہے، بلکہ اسے روایت کرنا بھی درست نہیں ہے۔
  3. مسکوت عنہ اسرائیلی روایات: یہ وہ روایات ہیں جن کی صدق یا کذب ہونے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ اس قسم کی روایات کو نصیحت اور عبرت دلانے کے لیے بیان کرنا جائز ہے، لیکن ہم اس کے سچے یا جھوٹے ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گے؛ کیونکہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android