اول:
تمام مسلمان اس پر متفق ہیں اور تواتر کے ساتھ مسلمانوں کا ہمارے پیارے آخری نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو تمام جنوں اور انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: " مجموع الفتاوى " از شیخ الاسلام ابن تیمیہ (4/204) ، (11/303)
جبکہ فرشتوں کے متعلق اکثر علمائے کرام کا موقف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرشتوں کے لیے پیغمبر بنا کر نہیں بھیجا گیا۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ثقلین یعنی انسانوں اور جنوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، آپ کی رسالت کے مخاطب فرشتے نہیں ہیں۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " (12/221)
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب: "النبوات" (2/232) میں لکھتے ہیں:
"کسی بھی نبی کی نبوت کے لیے نشانی کے طور پر پیش کی جانے والی چیز: لازمی طور پر ایسا معجزہ ہونی چاہیے کہ وہ چیز انسانوں اور جنوں کے لیے خرق عادت ہو، تاہم اس چیز کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ فرشتوں کے لیے بھی خرق عادت ہو؛ کیونکہ انبیائے کرام کی بعثت فرشتوں کی جانب نہیں ہوئی۔" مختصراً ختم شد
اس موقف کی بنا پر: یہ کہنا کہ ہمارے پیارے پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت تمام مخلوقات کی طرف کی گئی ہے درست نہیں ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت فرشتوں کی جانب نہیں ہوئی، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ان تمام مخلوقات کی جانب نہیں ہوئی جو ذی عقل نہیں ہیں؛ کیونکہ یہ تمام چیزیں عقل نہ ہونے کی وجہ سے شریعتِ الہی کی سرے سے مکلف نہیں ہیں چہ جائیکہ ان کی طرف انہی میں سے یا کسی اور مخلوق میں سے رسول بھیجا جائے؛ چنانچہ اللہ تعالی نے جن مخلوقات کو مکلف بنایا ہے، اور جنہیں شریعت کا مکلف بننے کی صلاحیت بخشی ہے وہ صرف جن اور انسان ہیں، تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت تمام جنوں اور انسانوں کی طرف ہوئی ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔
دوم:
یہ الگ بات ہے کہ تمام مخلوقات ہمارے پیارے پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اور رسالت کے سچے ہونے تصدیق کرتی ہیں، ما سوائے کافر جنوں اور انسانوں کے، جیسے کہ مسند احمد: (14333) میں سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (آسمان اور زمین کے درمیان میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے یہ علم نہ ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں، صرف نافرمان جن اور انسان اس کا انکار کرتے ہیں۔) اس حدیث کو مسند احمد کے محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔ اسی حدیث کے امام طبرانی نے الفاظ کچھ یوں بیان کیے ہیں: (صرف کافر جن اور انسان اس کا انکار کرتے ہیں۔)
سوم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت تمام انسانوں اور جنوں کے لیے جاری و ساری رہے گی، تا آں کہ اللہ تعالی اس دھرتی اور اس پر موجود چیزوں کو اپنی تحویل میں لے لے گا، لہذا آج تک جتنے بھی اللہ تعالی نے جن اور انسان پیدا فرمائے ہیں وہ سب کے سب نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے کے مکلف ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کریں۔
لیکن جب سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا اور لوگوں کے نامہ اعمال کو سیل بند کر دیا جائے گا، تو اب جو شخص بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان نہیں رکھتا تھا اس کا ایمان لانا اسے فائدہ نہیں دے گا، یہ بھی تب ہے جب فرض کر لیا جائے کہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے بعد کوئی ایمان لائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا
ترجمہ: کیا یہ اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود آپ کا پروردگار آئے یا اس کی کوئی نشانی (معجزہ) آئے؟ جس دن کوئی ایسا معجزہ آگیا تو اس وقت کسی کا ایمان لانا اسے کچھ فائدہ [١٨١] نہ دے گا جو اس سے پیشتر ابھی تک ایمان نہ لایا ہو یا اپنے ایمان کی حالت میں نیکی کے کام نہ کئے ہوں۔ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ : تم بھی انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ [الانعام: 158]
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک سورج اپنے غروب ہونے کی جگہ سے طلوع نہ ہو جائے، پس جب لوگ سورج کو مغرب سے طلوع ہوتا دیکھ لیں گے تو جتنے بھی لوگ اس وقت دھرتی پر ہوں گے سب ایمان لے آئیں گے، لیکن یہ وہ وقت ہو گا کہ جس میں کسی کا ایمان لانا اسے فائدہ نہیں دے گا جو پہلے سے مومن نہیں تھا۔) اس حدیث کو امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
واللہ اعلم