بچے کو اس کی عمر، فہم اور شعور کے مطابق اللہ تعالیٰ کا تعارف کروایا جائے۔ مثلاً اسے بتایا جائے کہ:
- اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔
- وہی آسمان و زمین، انسانوں، جانوروں، درختوں، ندی نالوں اور ہر چیز کا خالق ہے۔
بعض مواقع کو سبق آموز مواقع کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی باغ، صحرا یا قدرتی مناظر والی جگہ پر بچے کے ساتھ سیر کو گیا ہو، تو اسے ان چیزوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا جا سکتا ہے:
- یہ پانی کس نے پیدا کیا؟
- یہ درخت، پھول، جانور کس نے بنائے؟
اس انداز سے بچے کو اللہ کی قدرت اور عظمت کی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح، غروبِ آفتاب کے وقت سفر میں ہوں اور سورج آہستہ آہستہ چھپ رہا ہو، تو اس منظر کو استعمال کرتے ہوئے بچے کو اللہ کی قدرت کا احساس دلایا جا سکتا ہے۔
بچے کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس دلانا بھی بہت مؤثر ہوتا ہے۔
مثلاً اس سے پوچھا جائے:
- تمہیں سننے کی قوت کس نے دی؟
- دیکھنے کی صلاحیت، عقل، ہاتھ پاؤں، حرکت کرنے کی طاقت کس نے دی؟
پھر اس پر زور دیا جائے کہ اللہ کی ان نعمتوں پر ہمیں اللہ سے محبت رکھنی چاہیے اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
بچوں کو اللہ سے محبت دلانا اور انہیں ان باتوں کی تعلیم دینا جنہیں اللہ پسند کرتا ہے، ایک مثبت تربیتی طریقہ ہے، جس کے اچھے اثرات جلد یا بدیر ظاہر ہوتے ہیں، ان شاء اللہ۔
ایک خوبصورت مثال یہ ہے:
ایک ماں نے اپنے گھر کی دوسری منزل کے کمرے کی کھڑکی تازہ ہوا کے لیے کھولی، تو اس کا بچہ دوڑ کر آیا اور فوراً کھڑکی بند کر دی۔ ماں نے وجہ پوچھی تو بچے نے کہا:
’’میں نے قریبی مکان کی چھت پر ڈش انٹینا دیکھا، اور میں نہیں چاہتا کہ ایسی چیز دیکھوں جو میرے رب کو پسند نہ ہو‘‘۔
بعض اوقات بچہ اللہ کے بارے میں سوال کرتا ہے: کیا اللہ تعالی کھاتا ہے؟ کیا اللہ تعالی سوتا ہے؟
تو ایسے موقع پر اسے یہ بات سکھانا ضروری ہے کہ: اللہ کی کوئی مثال نہیں، وہ سب کچھ سننے والا، دیکھنے والا ہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے، نہ نیند، بلکہ اللہ تعالی کو کھانے، پینے، سونے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بچوں کو ان بنیادی عقائد کو سادگی، نرمی اور عمر کے لحاظ سے سمجھایا جائے، اور اللہ کی عظمت ان کے دل میں بٹھائی جائے، تاکہ وہ اللہ کی نگرانی کا احساس رکھیں، چاہے اکیلے ہوں یا لوگوں کے درمیان۔