سنت یہ ہے کہ آدمی نمازِ جنازہ جماعت کے ساتھ ادا کرے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نمازِ جنازہ انفرادی طور پر بھی جائز ہے، لیکن سنت یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ ادا کیا جائے؛ کیونکہ حدیث میں آیا ہے: (کوئی مسلمان فوت ہو جائے اور اس پر تین صفوں میں مسلمان نماز ادا کریں تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے) اس بارے میں کئی مشہور اور صحیح احادیث میں موجود ہیں، اور مسلمانوں کا اس پر اجماع بھی ہے، اور جنازے میں جتنے زیادہ افراد شریک ہوں، اتنا ہی افضل ہے۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: شرح المهذب( 5/173)
لیکن اگر کسی شخص کے لیے نمازِ جنازہ پہلی جماعت کے ساتھ ادا کرنا ممکن نہ ہو، تو ایسی صورت میں وہ امام اور جماعت سے پہلے بھی نمازِ جنازہ ادا کر سکتا ہے۔
اسی طرح قبرستان میں دفن سے پہلے جنازے کی نماز ادا کرنا بھی جائز ہے۔
شیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’۔۔۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ ثواب کے شوق میں جلدی جنازہ ادا کر لیتے ہیں، ان کے لیے امام و جماعت کے ساتھ انتظار ممکن نہیں ہوتا، تو ایسے لوگوں کو منع کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ جماعت کے ساتھ ادا کریں۔ واللہ اعلم۔‘‘ ختم شد
اسی طرح شیخ یوسف شبیلی حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا:
کیا کسی شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ امام کے جنازہ ادا کرنے سے پہلے اکیلے جنازہ ادا کر لے؟ مثلاً جنازہ عصر کے بعد ادا کیا جانا ہے، اور وہ شخص ظہر کے وقت ادا کر لیتا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
’’اگر جنازہ مسجد میں موجود ہو اور کوئی شخص ظہر کے وقت نمازِ جنازہ ادا کرنا چاہے، کیونکہ اسے عصر کے بعد شریک ہونے کا موقع نہیں ملے گا، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
افضل یہ ہے کہ وہ بھی جماعت کے ساتھ ادا کرے، چنانچہ اگر کچھ لوگ مل کر جماعت کی شکل میں جنازہ ادا کریں تو یہ بہتر ہے، لیکن اگر کوئی اکیلا ہو، تو تنہا ادا کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ کیونکہ نمازِ جنازہ کے صحیح ہونے کے لیے یہ شرط نہیں کہ امام مسجد کے جنازہ ادا کرنے کے بعد ہی ادا کی جائے۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: پروگرام ’’الجواب الكافي‘‘
لہٰذا:
آپ کے لیے امام کے جنازہ ادا کرنے سے پہلے نمازِ جنازہ ادا کرنا جائز ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ آپ نے جو عذر بیان کیا ہے وہ معتبر ہے۔
و الله اعلم