اول:
جو بچہ مسلمان ماں باپ کے ہاں پیدا ہو تو علمائے کرام کے اجماع کے مطابق اسے مسلمان ہی کہا جائے گا۔
لیکن اگر ماں باپ کا دین الگ الگ ہو، تو بچہ دونوں میں سے مسلمان کے تابع ہو گا، چاہے مسلمان ؛ باپ ہو یا ماں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی بچے کے والدین مسلمان ہوں تو وہ بچہ بھی مسلمان ہی کہلائے گا، اور تمام مسلمانوں کے اتفاق کے مطابق اپنے والدین کے تابع ہو گا۔ اسی طرح تب بھی مسلمان ہی کہلائے گا جب صرف ماں مسلمان ہو، یہ جمہور علمائے کرام مثلاً: ابو حنیفہ، شافعی، اور احمد کا موقف ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (10/437)
اسی طرح "الموسوعة الفقهية الكويتية" (4 /270) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب چھوٹے بچوں کا باپ مسلمان ہو جائے تو ان بچوں پر بھی مسلمان ہونے کا حکم لگایا جائے گا؛ کیونکہ یہ بچے بھی اپنے باپ کے تابع شمار ہوں گے۔
جبکہ جمہور (حنفی، شافعی، اور حنبلی) فقہائے کرام کے مطابق والدین میں سے جو بھی مسلمان ہو چاہے باپ ہو یا ماں اسی کا اعتبار ہو گا، لہذا ان بچوں کے مسلمان ماں یا باپ کے ماتحت ہونے کی وجہ سے ان پر اسلام کا حکم لگایا جائے گا؛ کیونکہ اسلام غالب ہوتا ہے اس پر کوئی غالب نہیں ہو سکتا، نیز اسلام ہی وہ دین ہے جو اللہ تعالی نے لوگوں کے لیے دیگر ادیان کے بر خلاف پسند فرمایا ہے۔" ختم شد
دوم:
مسلمان بچہ جب بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو اسے کلمہ شہادت پڑھ کر تجدید ایمان کی ضرورت نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جب مسلمان بچہ بالغ ہو جائے تو اس پر بلوغت کے بعد کلمہ شہادت پڑھ کر تجدید ایمان کرنا واجب نہیں ہے۔" ختم شد
" درء التعارض" (4 / 107)
اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا کہ:
"سلف صالحین اور ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ لوگوں کو سب سے پہلے کلمہ شہادت پڑھنے کا حکم دیا جائے گا ، اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اگر کسی نے بلوغت سے پہلے کلمہ شہادت پڑھا ہو تو بلوغت کے بعد اسے تجدید ایمان کا نہیں کہا جائے گا۔" ختم شد
" درء التعارض" (4 / 107)
تاہم اگر بلوغت کے بعد کسی سے کوئی ایسا عمل صادر ہو جس سے واضح ہو کہ وہ اسلام پر خوش نہیں ہے ، تو ایسے شخص کو مرتد شمار کیا جائے گا اور اس کے ساتھ مرتد والا سلوک ہی ہو گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"چھوٹے بچے کا دنیاوی احکامات میں وہی حکم ہو گا جو اس کے والدین کا ہے؛ کیونکہ بچہ والدین کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ اور اگر یہی بچہ بالغ ہو جائے اور زبان سے اسلام یا کفر کا اظہار کرے تو تمام مسلمانوں کے اتفاق کے مطابق اس بالغ پر اس کے عمل کے مطابق حکم لگے گا۔ اور اگر والدین یہودی ہوں یا عیسائی اور یہ بچہ مسلمان ہو جائے تو وہ متفقہ طور پر مسلمان شمار ہو گا، اور اگر والدین مسلمان ہوں اور یہ بچہ کفر کر لے تو مسلمانوں کے متفقہ موقف کے مطابق کافر شمار ہو گا۔" ختم شد
"الفتاوى الكبرى" (1 / 64)
سوم:
جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کے والدین پر بچے کو نماز کا حکم دینا اور نماز کی ترغیب دلانا واجب ہے، کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں، اور نماز کے لیے انہیں جسمانی سزا دو جب وہ دس سال کے ہو جائیں۔) اس حدیث کو ابو داود: (495) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود: (466) میں صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ائمہ کرام کے مطابق: ماں اور باپ پر بچوں کو طہارت، نماز اور شرعی احکامات سات سال کے بعد سکھانا واجب ہے، اور اگر دس سال کی عمر کے بعد نماز چھوڑیں تو انہیں جسمانی سزا دیں۔" ختم شد
"المجموع "(3/ 11)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بچے کو دی جانے والی تادیب اس لیے ہے کہ بچہ نماز ادا کرنے کا عادی بن جائے، اور بالغ ہونے پر بھی نماز ترک نہ کرے، تاہم نماز ابھی بچے پر فرض نہیں ہوئی۔" ختم شد
"المغنی" (1/682)
بچہ اگر بالغ ہونے سے پہلے نماز نہ پڑھے تو اس سے بچہ اسلام سے خارج نہیں ہو گا؛ کیونکہ بچے پر ابھی نماز واجب ہی نہیں ہوئی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بچے پر نماز ادا کرنا فرض نہیں ہے چاہے بچے کی عمر دس سال کیوں نہ ہو جائے؛ یہ جمہور علمائے کرام کا موقف ہے ۔" ختم شد
الاختيارات الفقهية (1 / 32)
اس بنا پر ایسا بچہ جس کا والد مسلمان ہے لیکن ماں غیر مسلم ہے تو وہ مسلمان کہلائے گا، اور جب دس سال کا ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو اس سے وہ کافر نہیں ہو گا؛ کیونکہ نماز ابھی اس پر فرض نہیں ہے، جب بالغ ہو گا تو نماز فرض ہو گی، لیکن اگر بچہ بالغ ہو جائے اور پھر بھی نمازیں نہ پڑھے تو وہ بچہ اسلام سے مرتد شمار ہو گا، کیونکہ اس بچے نے نمازیں نہیں پڑھیں۔
واللہ اعلم