جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

فٹ بال كے كھلاڑى سے شادى كرنا

84291

تاریخ اشاعت : 06-12-2007

مشاہدات : 9333

سوال

كيا جرمنى كى فٹ بال ٹيم كے كھلاڑى سے شادى كرنا حلال ہے يا حرام ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فٹ بال كا كھيل كچھ شروط كے ساتھ كھيلنا جائز ہے:

پہلى شرط:

يہ كھيل مال پر نہ كھيلا جائے، نہ تو دونوں ٹيموں كى جانب سے ہو، اور نہ ہى كسى ايك ٹيم كى جانب سے، اور نہ ہى كسى تيسرى طرف سے؛ كيونكہ عوض يا انعام ميں يہ مال دينا جائز نہيں، صرف ان معين مقابلہ بازى ميں ہى مال دينا جائز ہے جو جھاد ميں تقويت كا باعث ہوں.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" نيزہ بازى، يا گھڑ سوارى، يا شتر سوارى كے مقابلہ كے علاوہ كسى اور ميں انعام نہيں ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1700 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3585 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2574 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2878 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

حديث ميں استعمال كلمہ " السبق " كا معنى عوض يا انعام ہے.

اور " النصل " تير كو كہتے ہيں.

اور " الخف " سے مراد اونٹ ہے.

اور " الحافر " سے مراد گھوڑا ہے.

بعض اہل علم نے ان تين اشياء كے ساتھ ہر اس چيز كو ملحق كيا ہے جو جھاد اور نشر دين ميں ممد و معاون ثابت ہوں، مثلا قرآن مجيد، اور حديث اور فقہ ميں انعامى مقابلہ كرنا، تو اس ميں انعامات دينے جائز ہيں.

اس بنا پر دو يا زيادہ ٹيموں ميں سے كامياب ہونے والى فٹ بال ٹيم كو انعام ميں دى جانے والى وغيرہ نہ تو لينى جائز ہے، اور نہ ہى دينى ائز ہے، يہ حرام ميں شامل ہوتى ہے.

دوسرى شرط:

اس ميں كوئى حرام كام مثلا بے پردگى اور ستر ننگا كرنا نہ پايا جائے، اور مرد كا ستر ناف سے ليكر گھٹنے تك ہے، اور يہ تو سب كو معلوم ہے كہ فٹ بال كھيلنے والے كھلاڑى اپنى رانيں بھى ننگى ركھتے ہيں، اور يہ حرام ہے.

تيسرى شرط:

يہ كھيل كھلاڑى كو كسى حرام كام كے ارتكاب كا باعث نہ بنے، مثلا نمازوں كو ضائع كرنا، اور جمعہ اور نماز باجماعت رہ جانا، ہم افسوس كے ساتھ يہ كہينگے كہ: كلبوں ميں كھيلنے والے ان كھلاڑيوں كى ميچ كى وجہ سے اكثر نماز رہ جاتى ہے، اور يہ سب كو معلوم ہے كہ نماز كو بغير كسى عذر وقت سے موخر كر كے ادا كرنا كبيرہ گناہ ہے، اور سلف كى ايك جماعت سے منقول ہے كہ جو شخص جان بوجھ كر عمدا ايسا كرتا ہے وہ كافر ہو جاتا ہے، اس ليے اس سے اجتناب كرنا بہت ضرورى ہے.

يہ اس كھيل كو فى ذاتہ ديكھنے كے اعتبار سے تھا، ليكن اس كھيل كے ميچ ركھنے، اور ٹورنامنٹ منعقد كروانا، اور اس ميں مال خرچ كرنا اور لوگوں كو اس ميں مشغول كرنا، اور اس كى بنا پر اوقات ضائع كرنا، اور اس كى وجہ سے تعصب كو زندہ كرنا، اور اس وجہ سے ہى مسلمان يا كافر، يا نيك و فاجر كو عزت و تكريم سے نوازنا، حتى كہ كھلاڑى لڑكے اور لڑكيوں كے ليے مثال اور نمونہ اور آئيڈيل بن جائے؛ تو اس كو منع كرنے اور روكنے ميں كوئى شك و شبہ نہيں رہ جاتا؛ كيونكہ امت كو اس ميں كئى ايك مصائب، اور جھالت و تخلف كا سامنا ہے، جو اس كھيل ميں مشغول ہونے سے كافى ہيں، جس ميں لوگوں كا كئى ملين خرچ كر كے ضائع كر ديا جاتا ہے.

شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس طرح كے ورزشى كھيلوں ميں اصل تو جواز ہى ہے جبكہ يہ كھيل كوئى مقصد اور ہدف ركھے، اور غلط اشياء سے برى ہو، جس طرح ابن قيم رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " الفروسيۃ " ميں اس كى طرف اشارہ كيا ہے، اور شيخ تقى الدين ابن تيميہ رحمہ اللہ وغيرہ نے بھى اسے بيان كيا ہے، اور اگر اس ميں جھاد اور كر و فر يعنى حملہ كر كے نكلنے اور دوبارہ حملہ كرنے اور جسم ميں چستى پيدا كرنے كى تدريب اور ٹريننگ ہوتى ہو، اور دائمى امراض كا قلع قمع اور روح كے ليے معنوى تقويت كا باعث بنے، تو اس وقت يہ مستحبات ميں شامل ہو گا جب كھلاڑى كى نيت اچھى ہو، اور سب كے ليے شرط ہے كہ يہ بدن اور جان كے ليے نقصان دہ نہ ہو، اور نہ ہى اس كے نتيجہ ميں بغض و عداوت پيدا ہو جو كہ عام كھلاڑيوں كے مابين پيدا ہونے كى عادت ہوتى ہے.

اور اس سے اہل اعمال سے انسان كو مشغول نہ كر دے، اور نہ ہى اللہ تعالى كے ذكر اور نماز سے روكے اور اس ميں مانع نہ ہو.

ليكن جو شخص بھى آج كل كى كھيلوں پر غور كريگا اور جس حالت ميں آج كھلاڑى ہيں تو انہيں ديكھے گا كہ وہ بہت سے ايسے كام كرتے ہيں جو اس بات كے متقاضى ہيں كہ ان سے ركا اور اجتناب كيا جائے، يہ تو اس كے علاوہ ہے جو اس كھيل ميں پايا جاتا ہے كہ اس كى بنا پر لوگ دو گروہوں ميں بٹ جاتے ہيں، اور جيتنے اور ہارنے والوں كے مابين حقد و كينہ اور بغض پيدا ہوتا ہے، يہ اس ٹيم كے حمايتيوں كا گروہ ہے، اور وہ دوسرى ٹيم كے حمايتى، جيسا كہ ظاہر ہے، اور اس كے ساتھ اس كھيل ميں كھلاڑيوں ميں تصادم اور جھگڑے كى صورت ميں جسم كو بھى نقصان اور ضرر پہنچتا ہے، تو كھيل ختم ہونے تك كسى نہ كسى كھلاڑى كو كوئى زخم آ چكا ہوتا ہے، يا اس كى كوئى ہڈى ٹوٹ چكى ہوتى ہے، يا پھر وہ بےہوش ہو چكا ہوتا ہے، اس ليے وہاں ايبمولينس گاڑياں بھى ہر وقت تيار كھڑى ہوتى ہيں.

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ يہ ميچ اس وقت كروائے جاتے ہيں جب نماز كا وقت ہو، جس كى بنا پر كھلاڑيوں اور ميچ ديكھنے والوں كى نماز ميں تاخير ہو جاتى ہے.

اور يہ بھى ہے كہ: كھلاڑيوں كا اس بنا پر حرام كردہ ستر ننگا ہوتا ہے مرد كا ستر گھٹنے سے ليكر ناف تك ہے، اس ليے آپ ديكھتے ہيں كہ ان كا لباس آدھى ران تك ہوتا ہے اور نيكر پہن ركھى ہوتى ہے، اور بعض نے تو اس سے بھى كم پہنا ہوتا ہے.

اور يہ معلوم ہے كہ ران ستر ميں شامل ہوتى ہے، كيونكہ حديث ميں ہے:

" اپنى ران ڈھانپ كر ركھو، كيونكہ ران ستر ميں شامل ہوتى ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2797 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ كا على رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمان ہے:

" اپنى ران ننگى نہ كرو، اور نہ ہى كسى زندہ اور مردہ كى ران كو ديكھو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4015 ).

واللہ تعالى اعلم. انتہى.

ماخوذ از: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم جلد نمبر ( 8 ) سوال نمبر ( 1948 ).

اور شيخ رحمہ اللہ يہ بھى كہتے ہيں:

" اب فٹ بال كھيلنے والا كئى ايك برے كام كرتا ہے جس كا تقاضا ہے كہ اس كھيل سے روكا جائے، ان ممنوعہ امور كا خلاصہ ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں:

اول:

ہمارے نزديك يہ ثابت ہو چكا ہے كہ يہ كھيل نماز كے اوقات ميں كھيلا جاتا ہے، جس كے نتيجہ ميں كھلاڑيوں اور ميچ ديكھنے والے يا تو نماز ترك كر ديتے ہيں، يا پھر نماز باجمات ادا نہيں كرتے، يا پھر اس كى ادائيگى ميں تاخيركرتے ہيں.

اور بغير كسى شرعى عذر كے نماز كى وقت پر ادائيگى، يا نماز باجماعت كى ادائيگى ميں حائل ہونے والے عمل كے حرام ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں ہے.

دوم:

اس كھيل كى طبعيت ميں شامل ہے كہ يہ لوگوں اور كھلاڑيوں كو گروہوں ميں تقسيم كر ديتا ہے، يا پھر فتنہ و فساد اور سينوں ميں بغض و حقد اور كينہ پيدا كرتا ہے، اور يہ نتائج اس چيز كے برعكس ہيں جس كى اسلام دعوت ديتا ہے، كہ لوگ آپس ميں پيار و محبت اور بھائى چارہ سے رہيں، اور اپنے دلوں كو حسد و بغض اور كينہ و نفرت سے پاك صاف ركھيں.

سوم:

اس كھيل ميں كھلاڑى كے جسم اور بدن كو كھلاڑيوں كے تصادم اور جھگڑا كى بنا پر خطرہ رہتا ہے، جس كا اوپر بيان ہو چكا ہے، اكثر طور پر جب كھلاڑي ميچ سے فارغ ہوتے ہيں تو ان ميں سے كوئى نہ كوئى كھيل كے ميدان ميں بے ہوش كر گرا ہوتا ہے، يا اس كى ٹانگ يا بازو ٹوٹا ہوتا ہے اور اس كى صداقت كى سب سے بڑى دليل يہ ہے كہ ميچ كے دوران ايمبولينس گاڑى وہاں ضرور موجود ہوتى ہے، جو ميچ كے وقت ان كے بالكل قريب كھڑى كى جاتى ہے.

چہارم:

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس سے ہميں يہ معلوم ہوتا ہے كہ ورزش والى كھيلوں كى مباح ہونے كا مقصد اور غرض و غايت بدن اور جسم ميں چستى اور پھرتى پيدا كرنا، اور جھاد كى ٹريننگ، اور دائمى امراض كا قلع قمع ہے.

ليكن اب فٹ بال كا كھيل اس ميں كوئى بھى ہدف نہيں ركھتا، كيونكہ اس ميں وہ كچھ ممنوعہ كام شامل ہو چكے ہيں جن كا اوپر ذكر ہو چكا ہے، اس ميں باطل طريقہ پر مال خرچ كيا جاتا ہے، اس كے علاوہ بدن كو زخم آتے ہيں، اور كھلاڑيوں اور ميچ ديكھنے والوں كے دلوں ميں بغض و كينہ پيدا ہوتا ہے، اور فتنہ و فساد مچتا ہے.

بلكہ معاملہ تو اس سے بھى بڑھ كر بعض مشاہدين كى جانب سے كسى نہ كسى كھلاڑى كو قتل يا اس پر زيادتى تك جا پہنچتا ہے، جيسا كہ كئى ماہ قبل ايك ملك اور علاقے ميں دوران ميچ ہوا بھى ہے، بس يہى ايك چيز اس كھيل كو روكنے كے ليے كافى ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " انتہى.

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" جو چيز تقويت ديتى ہے: جب مرتب اور مخصوص شكل ميں ہو ( جيسا كہ كلبوں ميں ہے ) تو مطلقا اس سے منع كرتا ظاہر ہے، تو اس ميں نفس كا ضياع اور اللہ كے ذكر سے روكنا پايا جاتا ہے، تو اس طرح يہ قمار بازى كے قريب ہوا، اور انہوں نے اسے ورزش كا نام دے ركھا ہے، حالانكہ يہ كھيل ہے اور جھادى امور اس طرح كے نہيں ہوتے، اور اس كھيل كو كھيلنے والوں ميں چاہے خفت اور نرمى پائى جاتى ہے، ليكن وہ اس كے علاوہ كسى اور كام ميں تھكاوٹ پر صبر نہيں كر سكتے.

پھر اس ميں كچھ دوسرى ايسى چيزيں بھى داخل ہوتى ہيں جو اس ميں عوض بنا ديتى ہيں، اور يہ جوا اور قمار بازى ہے، اور شريعت مطہرہ نے تو عوض اور انعام صرف ان مقابلوں ميں ركھا ہے جو دين كى تقويت اور دين ميں معاونت كا باعث ہوں، اگر دين كو تقويت ملتى ہو تو اس ميں مقابلہ اور انعام كے ساتھ كھانا كھايا جا سكتا ہے.

اور حديث بيان ہوا ہے كہ:

" نيزہ ، اور گھوڑے، اور اونٹ كے علاوہ كسى ميں انعام نہيں "

حديث ميں بيان كردہ تين اشياء پر قياس كرتے ہوئے وہ چيز جو دين كى تقويت كا باعث ہو.

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" ليكن ايك يا دو شخص گيند كو لڑھكاتے پھريں، اور اس كے ساتھ غير منظيم كھيل كھيليں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس ميں كوئى ممنوعہ كام نہيں ہے.

واللہ تعالى اعلم " انتہى.

سوال نمبر ( 1949 ).

دوم:

جب يہ ثابت ہو چكا تو ہم آپ كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس كھلاڑى سے شادى مت كريں جو فٹ بال كھيلنے ميں مشغول ہے، حتى كہ وہ اس كھيل كو چھوڑ نہ دے، چاہے وہ كسى كلب كى طرف سے كھيلتا ہو يا باہر بھى كھيلتا ہو، خاص كر جب اس كے نتيجہ ميں آپ كو اس كے ساتھ رہنے كے ليے كفريہ ممالك ميں رہنا پڑے، جہاں آپ اپنے اور اپنى اولاد كو فتنہ و فساد سے نہيں بچا سكينگى، اور آدمى كے ليے كھيل كے ماحول ميں اپنے دين كى بھى حفاظت كرنى مشكل ہو جاتى ہے، اور خاص كر كفار كے ممالك ميں تو اور بھى مشكل ہے!!

مشرك اور كفار ممالك ميں رہائش اختيار كرنے كے حكم كے متعلق آپ سوال نمبر ( 13363 ) كے جواب ميں ديكھ سكتى ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب