اول:
جہاں تک مسافر کے لیے نماز قصر کرنے کا تعلق ہے تو یہ مؤکد سنت ہے، اسے ترک نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے تمام سفروں میں نمازوں کو قصر کیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے سفر میں پوری نماز پڑھی ہو۔
لیکن... جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مسافر پر بھی اسی طرح واجب ہے جیسے مقیم پر واجب ہے۔ لہٰذا محض قصر کرنے کے لیے جماعت چھوڑ دینا جائز نہیں، بلکہ اسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ اور اگر امام مقیم ہو اور پوری نماز پڑھا رہا ہو، تو وہ اس کے پیچھے مکمل نماز ادا کرے گا۔
دوم:
جہاں تک سفر میں دو نمازوں کو جمع کرنے کا تعلق ہے، تو یہ جائز ہے، اور افضل یہ ہے کہ وہ جمع نہ کرے جب تک ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنے میں مشقت نہ ہو۔
اس بنا پر قصر اور جمع کا حکم ایک جیسا نہیں ہے؛ قصر ہر مسافر کے لیے مؤکد سنت ہے، جبکہ جمع جائز ہے، سنت نہیں ہے، اور جب اس کے ترک کرنے میں مشقت ہو تو پھر دو نمازوں کو جمع کرنا مستحب سنت ہو جاتا ہے۔
اس پر سنت سے دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے تمام سفروں میں نمازوں کو قصر کیا، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مسافر کے لیے سنت قصر کرنا ہے۔
اور دو نمازوں کو جمع کرنے کے حوالے سے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سفر میں جمع کرنا بھی ثابت ہے، اور سفر میں جمع نہ کرنا بھی ثابت ہے، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہر مسافر کے لیے جمع کرنا مستحب سنت نہیں ہے۔
جواب کا خلاصہ:
مسافر کو قصر کرنے اور نہ کرنے کا اختیار نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے قصر کرنا مؤکد ہے، سوائے اس کے کہ وہ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو جو پوری نماز پڑھا رہا ہو، تو وہ اس کے پیچھے پوری نماز پڑھے گا۔
رہا جمع کرنا، تو اس میں مسافر کو اختیار ہے، چاہے جمع کرے یا نہ کرے، یا کبھی کرے اور کبھی نہ کرے۔ لہذا دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے مستحب نہیں، اور اگر مسافر کو دو نمازوں کو جمع کرنے کی ضرورت ہو تو پھر جمع کرنا بھی مستحب ہو جاتا ہے۔
واللہ اعلم