جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

عورت كا سير و تفريح اور ضرورى اشياء كى خريدارى كرنا

سوال

جب لوگ كہتے ہيں كہ عورتوں كو باہر نہيں نكلنا چاہيے، بلكہ اگر كوئى شديد ضرورت ہو تو وہ باہر نكل سكتى ہے، تو ميں اس سے بہت پريشان ہوتى ہوں، ميرا سوال يہ ہے كہ آيا چھوٹى موٹى ضروريات ( يا جائز اور حلال سيروتفريح ) كے ليے بھى باہر جانا حرام شمار ہوتا ہے، چاہے مكمل پردہ كر كے جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسلام عورت كى عزت و كرامت كى حفاظت كے ليے آيا ہے، اور شريعت اسلاميہ نے اس كے ليے كئى ايك احكام مشروع كيے ہيں جو اس كى حفاظت كرتے ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم اپنے گھروں ميں ٹكى رہو الاحزاب ( 33 ).

اس بنا پر اصل تو يہى ہے كہ عورت اپنے گھر ميں ہى رہے، اور بغير كسى ضرورت و حاجت كے باہر نہ نكلے، اور دين اسلام نے تو عورت كى گھر ميں نماز كى ادائيگى كو مسجد ميں آكر نما زادا كرنے سے بھى بہتر قرار ديا ہے، ﴿چاہے مسجد حرام ميں ہى ہو ).

اس يہ معنى نہيں كہ عورت گھر ميں ہى قيد كر ركھ دى گئى ہے، بلكہ اس كے ليے دين اسلام نے مسجد جانا مباح كيا ہے، اور اس پر حج اور عمرہ كى ادائيگى، اور نماز عيد وغيرہ واجب كى ہے، اور اس كے ليے اپنے عزيز و اقارب اور رشتہ داروں اكى زيارت و ملاقات كے ليے جانا بھى مشروع ہے، اور وہ اہل علم سے فتوى لينے اور سوال دريافت كرنے كے ليے بھى جا سكتى ہے.

اور اسى طرح عورتوں كے ليے اپنى ضروريات كے ليے باہر نكلنے كى بھى اجازت ہے، ليكن يہ سب كچھ شرعى قوانين و ضوابط كے تحت رہتے ہوئے كيا جائيگا، كہ محرم كے بغير سفر نہ ہو، اور راستہ بھى پرامن ہو، اور حضر بھى پرامن ہو، اور اسى طرح وہ مكمل باپردہ ہو كر باہر نكلے، نہ كہ بےپرد اور زيب و زينت اختيار كر كے.

اس كے متعلق كئى ايك شرعى نصوص وارد ہيں:

ا ـ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم ميں سے كسى كى بيوى مسجد جانے كى اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ كرے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 827 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 442).

ب ـ عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى زينب رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں فرمايا:

" جب تم ( عورتوں ) ميں سے كوئى مسجد آئے تو وہ خوشبو مت لگائے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 443 ).

ج ـ جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميرى خالہ كو طلاق ہو گئى تو اس نے اپنى كھجوروں كا پھل اتارنا چاہا تو ايك شخص نے انہيں باہر نكلنے سے ڈانٹا، چنانچہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيوں نہيں، تم اپنى كھجوروں كا پھل اتارو، اميد ہے تم صدقہ كرو يا پھر كوئى نيكى كا كام "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1483 ).

اور سوال ميں جس تفريح كى طرف اشارہ كيا گيا ہے، ہو سكتا ہے اس تفريح ميں اجنبى اور غير محرم مردوں سے اختلاط بھى اور ديكھنا بھى، يا پھر بغير محرم كے سفرن يا بغير كسى فائدہ كے بكثرت ہو؛ اس ليے يہاں يہ تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ تفريح حقيقتا مباح اور حلال ہو، اور اللہ تعالى كى سزا كا موجب بننے والے حرام كاموں سے خالى ہو.

اس ليے اگر عورت كسى ايسى جگہ جائے جہاں نہ تو حرام كام ہو، اور نہ ہى عورت اس وجہ سے بكثرت باہر جائے، تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں عفت و عصمت، اور بہتر دين سے نوازے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد