جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

كيا حج كے اخراجات والد سے لينا جائز ہيں ؟

59874

تاریخ اشاعت : 06-12-2006

مشاہدات : 4867

سوال

كيا ميرے والد كے ليے ميرے اور ميرى بيوى كے اخراجات حج ادا كرنا جائز ہيں ؟
اور كيا وہ بطور ہديہ حج كى دو ٹكٹ اور باقى اخراجات دے سكتے ہيں؟
اور اگر مندرجہ بالا دونوں طريقوں ميں سے اگر كوئى بھى طريقہ اختيار كريں تو كيا ہمارا حج نفلى ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كوئى شخص بھى كسى دوسرے كو حج كے اخراجات مہيا كر سكتا ہے اور فرضى يا نفلى حج صحيح ہونے كے ليے يہ شرط نہيں كہ حج كے اخراجات انسان كے ذاتى ہوں، بلكہ كوئى دوسرا بھى دے تو اس سے حج صحيح ہوگا.

اور اگر اخراجات دينے والا شخص كوئى قريبى رشتہ دار ہو تو اس كے ليے اجروثواب اور بھى زيادہ ہوگا، اور ان شاء اللہ اسے اس كے حج جتنا ہى اجروثواب حاصل ہوگا، آپ كے والد جو كچھ آپ اور آپ كى بيوى كے حج كے اخراجات مہيا كرنے كا كام كر رہے اس پر ان كا شكريہ ادا كريں، اور ان كا يہ عمل درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں شامل ہوتا ہے:

اور نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو المآئدۃ ( 2 ).

سوال ميں بيان كردہ دونوں طريقوں ميں كوئى فرق نہيں، اور اگر آپ دونوں نے پہلے حج نہيں كيا تو آپ كا يہ حج فرضى ہوگا، اور والد كے اخراجات دينے كى بنا پر نفلى نہيں بلكہ فرضى ہى رہےگا.

اس كے متعلق مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا فتوى سوال نمبر ( 36990 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كر ليں.

اور اس ميں يہ شرط ضرور ہے كہ آپ كے والد جو آپ كو حج كے اخراجات مہيا كر رہے ہيں انہوں نے اس سے قبل حج كيا ہوا ہو؛ كيونكہ وہ بھى حج كى فرضيت كے مخاطب ہيں، ان كے ليے يہ جائز نہ ہوگا كہ وہ خود تو فرضى حج ميں تاخير كرتے پھريں اور دوسروں كو حج كروائيں، بلكہ اولى اور بہتر يہ ہے كہ پہلے وہ خود حج كريں، اور پھر اگر ان كے پاس مال باقى بچے تو وہ آپ كا حج كے اخراجات ميں تعاون كريں.

اس سلسلے ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا فتوى سوال نمبر ( 36637 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے، اس كى مطالعہ ضرور كريں.

كسى دوسرے كے ديے ہوئے مال سے حج كرنے كى دليل كسى فقير شخص كو حج كرنے كے ليے زكاۃ كى ادائيگى ہے، اور يہ زكاۃ كے مستحقين كے متعلق قرمان بارى تعالى ميں شامل ہوتا ہے:

اور اللہ كى راہ ميں التوبۃ ( 60 ).

اور يہ جھاد اور حج كو بھى شامل ہے.

اس كے متعلق سوال نمبر ( 40023 ) كے جواب ميں تفصيل بيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب