جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

كتے كى نجاست دور كرنے كى كيفيت

41090

تاریخ اشاعت : 15-04-2007

مشاہدات : 7754

سوال

كتے كى نجاست سے پاكى كس طرح حاصل كى جا سكتى ہے، اور كيا سات بار دھونا واجب ہے يا كہ ايك بار ہى دھونا كافى ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تمہارے كسى برتن ميں كتا منہ ڈال جائے تو اس برتن كى پاكى يہ ہے كہ اسے سات بار دھويا جائے، پہلى بار مٹى كے ساتھ دھويا جائے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 279 ).

امام مسلم رحمہ اللہ نے ہى عبد اللہ بن مغفل رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب كتا برتن ميں منہ ڈال جائے تو اسے سات بار دھوؤ اور اسے آٹھويں بار مٹى سے لتھيڑ اور مل كر دھوؤ "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 280 ).

ان دونوں حديثوں ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى نجاست كو پاك كرنے كى كيفيت بيان فرمائى ہے كہ برتن سات بار دھويا جائے جن ميں ايك بار مٹى كے ساتھ دھونا بھى شامل ہے، اور يہ دونوں ہى واجب ہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كتے كى نجاست كو سات بار دھونے كے وجوب ميں كوئى مذہب مختلف نہيں ان ميں ايك بار مٹى سے دھونا ہے، يہ امام شافعى رحمہ اللہ كا قول ہے. انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 73 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كتے كا برتن ميں منہ ڈالنے كے مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف ہے اس ميں ہمارا مذہب يہ ہے كہ جس چيز ميں كتا منہ ڈال دے وہ نجس ہو جاتا ہے اور اسے سات بار دھونا جن ميں ايك بار مٹى سے دھونا واجب ہے اكثر علماء كا يہى قول ہے.

ابن منذر رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ، ابن عباس، رضى اللہ عنہم اور عروہ بن زبير، طاؤس، اور عمرو بن دينار، مالك اور اوزاعى اور احمد اور اسحاق اور ابو عبيد اور ابو ثور سے سات بار دھونا واجب ہے بيان كيا ہے، ابن منذر كہتے ہيں: ميرا قول بھى يہى ہے " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 598 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر كتے كى نجاست زمين كے علاوہ كسى اور چيز پر ہو تو اسے سات بار دھونا واجب ہے جن ميں ايك بار مٹى كے ساتھ دھونا ہوگا " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 245 ).

افضل يہ ہے كہ پہلى بار مٹى سے دھويا جائے، اور اگر پہلى كے علاوہ كسى اور بار مٹى شامل كى جائے تو مقصد حاصل ہو جائيگا اور جگہ پاك ہو جائيگى.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" حاصل يہ ہوا كہ پہلى بار مٹى سے دھونا مستحب ہے، اور اگر ايسا نہ كيا جائے تو پھر ساتويں بار سے پہلے دھونا اولى اور بہتر ہے، اور اگر ساتويں بار مٹى سے دھوئے تو جائز ہے، صحيح مسلم كى روايت ميں آيا ہے كہ: " سات بار دھويا جائے"

اور ايك روايت ميں ہے:

" سات بار دھويا جائے ان ميں پہلى بار مٹى كے سات "

اور ايك روايت ميں: پہلى بار كى بجائے آخرى بار كے الفاظ ہيں"

اور ايك روايت ميں سات بار اور ساتويں بار مٹى سے دھونے كا ذكر آيا ہے "

اور ايك روايت ميں ہے:

" سات بار اور آٹھويں بار مٹى سے لتھيڑ كر دھويا جائے "

اور بيہقى وغيرہ نے يہ سب روايات بيان كى ہيں اور اس ميں يہ دليل پائى جاتى ہے كہ پہلى يا كسى اور بار كى قيد كى شرط نہيں، بلكہ مراد يہ ہے كہ ان ميں ايك بار مٹى سے دھويا جائے " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 598 ).

اور پھر مٹى كے ساتھ دھونے كے كئى ايك طريقے ہيں:

1 - پانى سے دھو كر اس پر مٹى بكھير كر مل كر دھويا جائے.

2 - پہلے مٹى لگائيں اور پھر اس كے بعد پانى سے دھوئيں.

3 - مٹى كو پانى ميں ملا كر پھر اس سے برتن دھويا جائے.

ديكھيں: شرح بلوغ المرام ابن عثيمين حديث نمبر ( 14 ) كى شرح.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب