اول:
مسلمان کے مال پر جارحیت کا مظاہرہ کرنا حرام ہے
اسلام میں کسی بھی مسلمان کے مال پر ناحق قبضہ یا اسے نقصان پہنچانا حرام ہے، چاہے وہ مال معمولی ہو یا زیادہ۔ اس بارے میں قرآن و سنت میں بہت سی نصوص موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ترجمہ: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ، سوائے اس کے کہ تم آپس کی رضا مندی سے تجارت کرو ۔[النساء: 29]
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کسی مسلمان کا مال، اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں) مسند احمد، حدیث: 20172؛ البانی ؒ نے اسے إرواء الغليل: 1459 میں صحیح قرار دیا ہے۔
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیشک تمہارے خون، تمہارے مال، اور تمہاری عزتیں تم سب پر ایک دوسرے کے لیے محترم ہیں۔)اسے بخاری : (1739) اور مسلم: (1679) نے روایت کیا ہے۔
ان تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے، چاہے وہ نقصان تلف کر کے ہو، زبردستی قبضے سے، چوری سے یا کسی بھی دوسرے طریقے سے۔
دوم:
جو کسی کی چیز تلف کرے، وہی اس کا ضامن ہے
اگر کوئی شخص کسی مسلمان کا مال تلف کر دے یا نقصان پہنچائے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کا معاوضہ یا بدل ادا کرے۔
- اگر وہ چیز ایسی ہو جس کا متبادل (مثلاً ویسا ہی مال) موجود ہو، تو وہی مہیا کرے۔
- اگر وہ چیز ایسی ہو جس کا کوئی متبادل نہیں، تو اس کی قیمت ادا کرے۔
یہ حکم بچے یا بڑے دونوں کے لیے یکساں ہے۔
یعنی مال کے نقصان پر تاوان دینا اس بات سے مشروط نہیں کہ نقصان پہنچانے والا بالغ ہو، بلکہ تاوان تو ہر حال میں واجب ہوتا ہے، البتہ گناہ اور مؤاخذہ صرف بالغ پر ہوتا ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’زرِ ضمانت (تاوان) کے لیے بلوغت شرط نہیں، لہٰذا اگر کوئی بچہ، پاگل یا سویا ہوا شخص کسی کا مال ضائع کر دے تو اس کا تاوان دینا لازم ہو گا۔ یہ ان بنیادی شرعی اصولوں میں سے ہے جن کے بغیر انسانی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر ان پر تاوان لازم نہ کیا جائے تو لوگ ایک دوسرے کا مال ضائع کر کے لاعلمی یا غلطی کا بہانہ بنانے لگیں گے۔ البتہ اسے گناہ یا سزا دی جائے گی یا نہیں؟ اس کے احکام اس سے مختلف ہیں، کیونکہ ان کا تعلق شرعی مخالفت، بندے کے ارادے، اور معصیت سے ہوتا ہے۔‘‘ ختم شد
ماخذ: ’’إعلام الموقعين‘‘ (2/502)
چنانچہ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس درخت کی شاخ کی کوئی مالی قیمت تھی، تو تم پر لازم ہے کہ تم اس کا معاوضہ ادا کرو، اور اس کے مالک کو کسی نہ کسی طریقے سے وہ رقم پہنچا دو۔ تم پر یہ لازم نہیں کہ اسے بتایا جائے کہ یہ کس وجہ سے رقم دی جا رہی ہے۔
اس کی مزید تفصیل سوال نمبر: (45016) کے جواب میں دیکھی جا سکتی ہے۔
البتہ ظاہر یہی ہوتا ہے کہ وہ شاخ جسے ایک بچہ کاٹ دے، عام طور پر اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں اگر تم اس کے مالک سے ملو تو بس معذرت کر لینا اور معاف کروا لینا کافی ہے۔
عام طور پر لوگ ایسی چھوٹی باتوں کو معاف کر دیا کرتے ہیں۔
واللہ اعلم