جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

ماسک پہننے کی وجہ سے ہونٹوں تک آنے والے لعاب کو نگلنے کا کیا حکم ہے؟

سوال

کرونا وائرس سے بچنے کے لیے ہمیں ان ایام میں ماسک پہننا پڑتا ہے، اور ماسک پہن کر ہی بات کرنی پڑتی ہے اور کچھ لعاب بھی ماسک کو لگ جاتا ہے اور ماسک چونکہ منہ کے ساتھ چپکا ہوتا ہے تو اسے جدا کرنا بھی مشکل ہے، اب یہ نہیں معلوم کہ یہ لعاب دوبارہ منہ میں چلا جاتا ہے یا نہیں، تو سوال یہ ہے کہ اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟ اسی طرح اگر یہ ہونٹ پر خشک ہو گیا اور پھر میں نے دونوں ہونٹ بند کر لیے تو کیا اس لعاب کا اثر ابھی بھی باقی ہو گا ؟ یا پھر اس کے خشک ہو جانے کی وجہ سے کوئی حرج نہیں ہو گا؟

جواب کا خلاصہ

اگر لعاب یا تھوک ہونٹوں تک آ جائے اور غیر ارادی طور انسان اسے نگل لے، مثلاً غیر ارادی طور پر زبان سے اپنے ہونٹ تر کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح ہونٹ خشک ہو جائیں اور پھر وہ اپنے ہونٹوں کو بند کر لے تو خشک ہو جانے کی وجہ سے لعاب وغیرہ کے اثرات بھی زائل ہو جائیں گے، اور روزہ توڑنے کا عمداً یا خطاً سبب بننے والا کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔ لیکن اگر ہونٹوں تک آنے والے تھوک کو عمداً نگلے تو اس کے روزہ ٹوٹنے کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے، اس کی تفصیل مکمل جواب میں ملاحظہ کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر لعاب یا تھوک ہونٹوں تک آ جائے اور غیر ارادی طور انسان اسے نگل لے، مثلاً غیر ارادی طور پر زبان سے اپنے ہونٹ تر کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح ہونٹ خشک ہو جائیں اور پھر وہ اپنے ہونٹوں کو بند کر لے تو خشک ہو جانے کی وجہ سے لعاب وغیرہ کے اثرات بھی زائل ہو جائیں گے، اور روزہ توڑنے کا عمداً یا خطاً سبب بننے والا کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔

لیکن اگر ہونٹوں تک آنے والے تھوک کو عمداً نگلے تو اس کے روزہ ٹوٹنے کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے:

شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ اس سے روزہ فاسد ہو جائے گا؛ کیونکہ تھوک اپنی جگہ یعنی منہ کے اندرونی حصے سے جدا ہو گیا ہے، تو اب اس تھوک کو نگلنا ایسا ہے جیسے کوئی باہر سے چیز نگل لے۔

جیسے کہ علامہ نووی رحمہ اللہ روزہ ٹوٹنے کا باعث نہ بننے والے تھوک کو نگلنے کے متعلق کہتے ہیں:
"تھوک کو اس کی جگہ سے ہی نگل لے۔ لیکن اگر اپنے منہ تک لے آئے اور پھر اپنی زبان یا زبان کے بغیر ہی اسے نگلے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
ہمارے شافعی فقہائے کرام یہ بھی کہتے ہیں: اگر ہونٹوں پر تھوک لے آئے اور پھر اسے نگل لے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا؛ کیونکہ روزے کے حقوق میں کمی کر رہا ہے، نیز یہ بھی کہ وہ قابل معافی جگہ سے نکل گیا ہے۔ متولی ؒ کہتے ہیں: اگر تھوک ہونٹوں تک نکالے پھر اسے واپس نگل لے تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے۔" ختم شد
المجموع: (6/342)

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/ 17)میں کہتے ہیں:
"اگر تھوک منہ سے نکل کر کپڑے کو لگ جائے ، یا اس کی انگلیوں کو لگے، یا دو ہونٹوں کے درمیان ہو پھر اسے دوبارہ لوٹا کر نگل لے، تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے؛ کیونکہ اس نے منہ کی بجائے کسی اور جگہ سے تھوک کو نگلا ہے، تو یہ ایسے ہی جیسے اس نے کوئی چیز نگلی ہے۔" ختم شد

جبکہ احناف کہتے ہیں کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، الا کہ تھوک منہ سے جدا ہو جائے اور پھر دوبارہ اپنے منہ میں لے جائے۔

چنانچہ فتح القدیر: (2/ 332) میں ہے کہ:
"اگر تھوک منہ سے نکل آئے اور اسے دوبارہ منہ میں داخل کر کے نگل جائے: یعنی منہ میں موجود کسی چیز سے اس کا رابطہ منقطع نہ ہو بلکہ منہ میں موجود کسی چیز دھاگے وغیرہ سے متصل ہو اور تھوک کو دوبارہ سے کھینچ کر منہ میں لے جائے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، لیکن اگر تھوک کا تعلق منقطع ہو گیا، اور وہ اسے منہ میں لے کر نگل گیا تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا، تاہم اس پر کفارہ نہیں ہو گا، بالکل ایسے ہی جیسے وہ کسی اور کا تھوک نگل جائے۔ اور اگر تھوک منہ میں جمع کر کے نگل لے تو یہ مکروہ عمل ہے، البتہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔" ختم شد

منہ سے جدا ہو کر ماسک پر لگ جانے والے تھوک سے بچنا چاہیے ، اسے دوبارہ عمداً منہ میں لے کر نہ نگلے۔

لیکن جس سے بچنا ناممکن ہو، یا غیر ارادی طور پر منہ میں داخل ہو جائے تو زیادہ بہتر یہی ہے کہ یہ قابل معافی ہے؛ کیونکہ یہ معمولی ہے اور اس سے بچنا مشکل ہے؛ جیسے کہ شریعت نے بھی کلی کے بعد منہ بچ جانے والی تری کو قابل معافی قرار دیا ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (275556 ) اور (49005 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب