اول:
اگر آپ کا کوئی قریبی رشتہ دار آپ سے کہے: ’’میرے لیے ایک موبائل خرید دو‘‘، تو یہ شرعاً ’’وکالت‘‘ ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ اس موبائل کو خود خریدیں اور پھر اسے اس رشتہ دار کو بیچ دیں، اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ اگر وہ موبائل آپ کے پاس پہلے سے موجود ہو تو آپ اسے اس کے علم کے بغیر اسے فروخت کر دیں؛ کیونکہ وکیل کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے لیے خریدے یا بیچے۔
جیسا کہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’جسے کسی چیز کے بیچنے کا وکیل بنایا گیا ہو، اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسے خود خرید لے… یہ امام شافعی اور اصحابِ رائے (احناف) کا بھی موقف ہے۔‘‘ ختم شد
المغنی: (5/237)
دوم:
جس شخص نے آپ کو خریداری کا اپنا وکیل بنایا اور ساتھ میں آپ کو رقم نہیں دی، تو یہ دو باتوں کا مجموعہ ہوا:
- وہ شخص آپ سے قرض لے رہا ہے۔
- اسی قرض سے آپ اس کی طرف سے خریداری بھی کر رہے ہیں۔
ایسی صورت میں آپ کے لیے قیمت میں اضافہ کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ قرض پر نفع لینا شمار ہو گا، جو کہ شرعاً ناجائز ہے۔
اور اگر کسی نے آپ کو خریداری کے لیے پہلے سے رقم دے دی، تو یہ صرف وکالت ہے۔ اس صورت میں اگر خریداری کے وقت کوئی رعایت، تحفہ یا فائدہ ملے، تو وہ موکل (یعنی جس کے لیے خریدا جا رہا ہے) کا حق ہو گا، نہ کہ وکیل کا۔
جیسا کہ ’’مطالب أولي النهى‘‘ (3/132) میں ہے:
’’(اور اگر بیچنے والا وکیل کو کوئی ہدیہ دے) جیسے قیمت میں کمی، تو وہ لین دین کا ہی حصہ ہو گی ؛ کیونکہ وہ موکل کا حق ہو گا۔‘‘ ختم شد
اسی طرح ’’فتاوی اللجنة الدائمة‘‘ (14/275) میں آیا ہے:
’’مسلمان پر لازم ہے کہ معاملات میں سچ بولے، اور کسی کا مال ناحق لینا یا دھوکے سے لینا جائز نہیں۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بھائی کو کسی چیز کی خریداری کا وکیل بنائے، تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خریدی گئی چیز کی اصل قیمت سے زیادہ رقم لے، اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ بیچنے والا وکیل کے کہنے پر رسید میں جھوٹی قیمت لکھ دے تاکہ وکیل موکل کو دھوکہ دے اور زائد رقم حاصل کرے۔ یہ سب گناہ، زیادتی اور ناجائز مال خوری کے زمرے میں آتا ہے، اور کسی مسلمان کا مال اس کی رضا کے بغیر حلال نہیں۔‘‘ ختم شد
لہٰذا خلاصہ یہ ہے:
آپ کے لیے جائز نہیں کہ آپ موکل سے کچھ چھپاتے ہوئے اس سے اضافی رقم لیں، الا کہ اس کی پیشگی رضامندی سے ہو، اور اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
- آپ اپنی خدمات کے بدلے اسے بتا کر اجرت لیں، یعنی یہ معاملہ ’’اجارہ‘‘ (کرایہ/محنتانہ) بن جائے۔
- آپ اسے موبائل بیچیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ موبائل پہلے آپ کی ملکیت میں ہو، یا آپ اسے بیچنے کے لیے عقد سلم کریں (یعنی بیع مؤجل)۔
دونوں صورتوں میں ضروری ہے کہ دوسرا فریق جانتا ہو کہ آپ بطور بیچنے والے کے معاملہ کر رہے ہیں، نہ کہ اس کے وکیل کے طور پر؛ کیونکہ صحیح بیع کے لیے فریقین کی رضامندی شرط ہے۔
مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر: (87782) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم