اول:
فرشتوں پر ایمان لانا ایمان کی بنیادی کڑی ، چنانچہ اس بات پر ایمان رکھنا کہ اللہ تعالی نے ہر فرشتے کو کسی نہ کسی کام کی ذمہ داری دی ہے ، اور فرشتے اس کائنات کے کچھ امور کو اللہ تعالی کے حکم کے مطابق چلاتے ہیں، یہ بھی فرشتوں پر ایمان میں شامل ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا ترجمہ: معاملات کی تدبیریں کرنے والے ۔ [النازعات: 5]
امام ابن کثیر رحمہ اللہ ا س آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا کے متعلق سیدنا علی، مجاہد، عطاء، ابو صالح، حسن بصری، قتادہ، ربیع بن انس، اور سدی کہتے ہیں کہ اس آیت میں فرشتے مراد ہیں۔ حسن بصری مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ: فرشتے آسمان سے زمین تک کے معاملات چلاتے ہیں، یعنی: اللہ عزوجل کے حکم سے، اور وہ اپنی ذمہ داریوں میں اختلاف نہیں کرتے۔" ختم شد
"تفسير ابن كثير" (8 / 313)
الشیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" فرمانِ باری تعالی: فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا سے مراد فرشتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے عالم علوی اور سفلی کے بہت سے کام کرنے کی ذمہ داری دی ہے، چنانچہ بارش برسانا، نباتات اور درخت اگانا، ہوائیں چلانا، سمندروں کو کنٹرول کرنا، شکم مادہ میں جنین کا خیال رکھنا، جانداروں کی دیکھ بھال، جنت اور جہنم سمیت دیگر ہمہ قسم کی ان پر ذمہ داریاں اللہ تعالی نے لگائی ہیں۔" ختم شد
"تفسیر سعدی" (ص 908)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آسمانوں اور زمین میں کسی بھی قسم تبدیلی اور حرکت چاہے وہ سورج ، چاند اور تاروں جیسے اجرام فلکیہ کی ہو یا ہواؤں ، بادلوں، نباتات اور حیوانات کی ہو یہ در حقیقت اللہ تعالی کے آسمانوں اور زمین پر مقررہ فرشتوں کی وجہ سے ہوتی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا ترجمہ: معاملات کی تدبیریں کرنے والے۔ [النازعات: 5] اسی طرح فرمایا: فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا ترجمہ: اور وہ امور کو تقسیم کرنے والے ہیں۔[النازعات: 4] ان سب سے اہل ایمان اور رسولوں کے پیروکاروں کے مطابق فرشتے ہی ہیں۔۔۔
کتاب و سنت میں متعدد اقسام کے فرشتوں کے متعلق دلائل موجود ہیں، کہ انہیں متنوع مخلوقات کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ چنانچہ پہاڑوں پر اللہ تعالی نے فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی ہے، بادلوں اور بارش پر فرشتوں کی ذمہ داری ہے، شکم مادر میں بھی فرشتے مقرر ہیں جو کہ نطفے سے لے کر مکمل جاندار بننے تک مکمل ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالی نے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں، انسانوں کے اعمال، لکھنے، ریکارڈ بنانے اور انہیں رجسٹروں میں محفوظ کرنے کی بھی فرشتوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ ایسے ہی موت کا عمل بھی فرشتوں کے ذریعے ہوتا ہے، قبر میں سوالات بھی فرشتوں کے ذریعے ہوں گے، اجرام فلکیہ کو حرکت دینے کی ذمہ داری بھی فرشتوں کے پاس ہے، سورج و چاند پر بھی فرشتے مقرر ہیں۔ آگ اور اس کے ایندھن کے لیے فرشتوں کی ذمہ داریاں ہیں، جہنمیوں کو عذاب دینا اور آگ کو بھڑکائے رکھنا بھی فرشتوں کے ذمہ ہے، پھر جنت ، جنت کی تعمیر ، جنت میں درخت لگانا، نہریں بنانا سب فرشتوں کے کام ہیں، اس طرح فرشتے اللہ تعالی کی سب سے بڑی فوج ہے۔" ختم شد
"اغاثة اللهفان" (2 / 842)
دوم:
فرشتوں کی اللہ تعالی نے مختلف کاموں پر ڈیوٹیاں لگائی ہوئی ہیں لیکن یہ سب کچھ اللہ تعالی کی تدبیر اور حکم سے ہی سر انجام دیتے ہیں؛ کیونکہ فرشتے صرف وہی کام کرتے ہیں جن کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
چنانچہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عربی زبان میں فرشتے کو " مَلَك " کہتے ہیں، اور یہ لفظ ہی اپنی ماہیت میں بتلا رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے احکامات کو نافذ کرتے ہیں، ان کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی، اس لیے کہ سب معاملات صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں جو کہ یکتا بھی ہے اور زبردست بھی ہے، فرشتے صرف اسی کے احکامات پر تعمیل کر رہے ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ، يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ترجمہ: وہ اس کے سامنے بات بھی نہیں کرتے بلکہ وہ اسی کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ [27] اللہ ان کے آگے کے احوال کو بھی جانتا ہے اور بعد والے احوال کو بھی۔ اور وہ فرشتے صرف اسی کے حق میں سفارش کر سکیں گے جس کے لئے اللہ راضی ہو اور فرشتے ہمیشہ اس کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں۔ [الانبیاء: 27 - 28] اسی طرح فرمایا: يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ترجمہ: فرشتے اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے، اور وہ وہی کرتے ہیں جن کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔[النحل: 50] ایک اور مقام پر فرمایا: لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ترجمہ: فرشتے اللہ کے حکم کی قطعا نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ وہ وہی کرتے ہیں جن کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ [التحریم: 6] اسی طرح فرشتے اللہ کے حکم سے ہی نازل ہوتے ہیں، اور اللہ کی اجازت کے بعد ہی کچھ کرتے ہیں، اس لیے فرشتے در حقیقت اللہ کے معزز بندے ہیں، ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو صف در صف کھڑے ہوئے ہیں، کچھ ہمیشہ تسبیح میں لگے ہوئے ہیں، ان میں سے ہر فرشتے کو اپنے مقام کا علم ہے وہ اپنے اس مقام سے ایک قدم بھی آگے پیچھے نہیں ہوتا، نیز فرشتہ اپنے اس مقام پر وہ کام کیے جا رہا ہے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے، نہ تو اس کام میں کوئی کمی کرتا ہے اور نہ ہی اس سے تجاوز کرتا ہے۔" ختم شد
"اغاثة اللهفان" (2 / 843)
سوم:
دین اسلام میں یہ بھی قطعی طور پر مسلمہ چیز ہے کہ اللہ تعالی کوئی بھی کام ہمیشہ کسی نہ کسی حکمت کے تحت فرماتا ہے، چاہے وہ حکمت ہمیں بتلا دے یا اپنے پاس چھپا لے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے جن و انس کی تخلیق کی حکمت کے بارے میں پوچھا گیا ۔
تو انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا:
"قبل ازیں کہ میں اس سوال کا جواب دوں، میں اللہ تعالی کے تخلیق اور تشریع کے متعلق ایک عمومی قاعدہ واضح کرنا چاہتا ہوں ۔
یہ قاعدہ اللہ تعالی کی صفت وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ وہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ اور اسی طرح إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا یقیناً اللہ تعالی ہمیشہ سے جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ اور اسی طرح کی دیگر آیات سے ماخوذ ہے جن میں اللہ تعالی کی تخلیق اور تشریع کے متعلق حکمت کا اثبات ہے، یعنی اللہ تعالی نے کائنات کے متعلق جتنے بھی حکم دینے ہوتے ہیں وہ حکمت بھرے ہوتے ہیں، اور اسی طرح جو شریعت کے متعلق جتنے بھی حکم دیے ہیں وہ بھی حکمت بھرے ہیں۔ لہذا یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ اللہ تعالی نے کوئی بھی چیز حکمت کے بغیر پیدا نہیں فرمائی، چاہے اللہ تعالی نے کسی چیز کو وجود بخشا ہو یا کسی چیز کو معدوم کیا ہو۔
اسی طرح اللہ تعالی جو بھی شرعی حکم دیتا ہے اس میں حکمت پنہا ہوتی ہے، چاہے اللہ تعالی کسی چیز کو واجب قرار دے، یا حرام قرار دے یا مباح قرار دے۔
لیکن یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالی کے کونی اور شرعی احکامات میں موجود حکمتیں ہمیں کبھی معلوم ہو جاتی ہیں اور کبھی معلوم نہیں ہوتیں، اسی طرح اگر معلوم ہو جائیں تو کسی کو معلوم ہوتی ہیں اور کسی کو نہیں ہوتیں، یہ بھی اللہ تعالی کے عطا کردہ علم اور فہم کی بدولت ہوتا ہے۔ " ختم شد
"مجموع فتاوى الشیخ ابن عثیمین" (1 / 87)
چہارم:
اللہ تعالی کی حکمت کامل ہوتی ہے یہ بات مسلمان کے ہاں مسلمہ ہے؛ کیونکہ اسے تسلیم کرنا ایمان کا بنیادی رکن ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اس سے اور تمام مخلوقات سے اپنی بندگی کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے لیے اپنے رسول کی زبانی جو چاہا بیان کروایا، لہذا اب نہ تو رسول کے پاس یہ اختیار ہے اور نہ ہی کسی اور کے پاس کہ وہ "کیوں" اور "کیسے" کے ذریعے سوال اٹھائے ، نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بتلائی ہوئی خبر میں اپنی رائے میں سے کچھ شامل کر سکتا ہے۔" ختم شد
"الأم" (10/16)
جب کسی مسلمان کو اس بات کی معرفت حاصل ہو جائے تو یہ بات مسلمان کو ذاتی تزکیہ نفس پر توجہ دینے کی ترغیب دیتی ہے۔ مسلمان اپنی عقل کو شتر بے مہار نہیں چھوڑتا کہ عقل اسے بے سود اور بے فائدہ سوالات میں الجھائے، ایسے سوالات مسلمان کے ذہن میں شکوک و شبہات اور وسوسے پیدا کرتے ہیں۔
ابن ابو العز حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات ذہن نشین ہو جائے کہ عبدیت اور اللہ پر ایمان، کتابوں پر ایمان، اور رسولوں پر ایمان کی بنیاد کامل تسلیم پر ہے۔ اس لیے انسان اللہ تعالی کے احکامات ، نواہی اور شرعی امور کی حکمتوں کے متعلق سوالات اٹھانے سے گریز کرے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے کسی بھی امت کے متعلق یہ بیان نہیں فرمایا کہ جس نے اپنے نبی کی تصدیق کی ہو، اور اپنے نبی کی لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان لائی ہو کہ اس امت نے اپنے نبی سے شرعی احکامات کی حکمتوں کے متعلق کبھی پوچھا ہو، انہوں نے نواہی کی حکمتیں کبھی نہیں پوچھیں، یا رسول نے ان امتوں تک ان حکمتوں کو پہنچایا اور پھر ان کی امتوں نے مان لیا۔ اگر ان امتوں کی طرف سے اس طرح کے سوالات اٹھائے گئے ہوتے تو وہ اپنے نبی پر ایمان لانے والے ہی شمار نہ ہوتے، لہذا انہوں نے سوالات اٹھائے بغیر سرِ تسلیم خم کیا، اور مکمل فرمانبردار ہو گئے۔
البتہ جن احکامات کی حکمت واضح ہوئی ان امتوں نے انہیں پہچان لیا اور جن کی واضح نہیں ہوئی تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جب تک ہمیں اس کی حکمت واضح نہیں ہوتی ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ نہ ہی انہوں نے اس حکمت کی ٹوہ لگانے کی کوشش کی؛ ان کے ہاں اپنے پیغمبر کی شان اور مقام اس بات سے کہیں بلند تھی کہ وہ ان سے احکامات کی حکمتیں پوچھتے۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ اس امت کے سلف صالحین جو کہ تمام امتوں سے زیادہ عقلمند ، صاحب دانش اور علم والے تھے؛ انہوں نے بھی کبھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ نہیں پوچھا کہ: اللہ تعالی نے ایسا حکم کیوں دیا؟ فلاں کام سے کیوں روکا ہے؟ کیوں اللہ تعالی نے فلاں چیز کو کم کر دیا؟ اور فلاں کام یوں کیوں کیا؟ کیونکہ انہیں علم تھا کہ ایسے سوالات ایمان اور کامل سرِ تسلیم نگوں کرنے سے متصادم ہیں، اور انسان کامل مومن تبھی ہوتا ہے جب سرِ تسلیم خم کر دے۔۔۔
یہ اللہ تعالی کا مقام و مرتبہ ہے کہ اس کے افعال کے بارے میں کیوں کہتے ہوئے نہیں پوچھا جاتا؛ اس لیے کہ اللہ تعالی کی حکمت، رحمت اور عدل سب کچھ ہی کمال درجے کے ہیں، اللہ تعالی نے یہ سب کچھ محض قہر اور قدرت کی وجہ سے نہیں کیا۔" ختم شد
"شرح الطحاوية" (ص 261 - 262)
فرمانِ باری تعالی ہے: وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ترجمہ: اور تیرا رب جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اور جسے چاہتا ہے چنیدہ بنا لیتا ہے۔ غیر اللہ میں سے کسی کو یہ اختیار نہیں۔ اللہ تعالی پاک ہے اور ان کے شریکوں سے بلند و بالا ہے۔[القصص: 68]
پنجم:
فرشتوں کے کاموں پر غور و فکر کرنے سے مسلمان کو اللہ تعالی کی حکمتوں کے متعدد پہلو معلوم ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی کا فرشتوں اور ان کی ذمہ داریوں کو پیدا کرنا اللہ تعالی کی ربوبیت اور الوہیت کے درجہ کمال کو ثابت کرتا ہے؛ کیونکہ جب مسلمان یہ مطالعہ کر چکا ہو کہ ان فرشتوں کے قد کاٹھ کتنے بڑے بڑے ہیں، اور ان کی تعداد کتنی زیادہ ہے، اور پھر ان کے ذمہ لگائے گئے کام کون کون سے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی ان تمام فرشتوں میں سے کوئی ایک بھی معمولی سے ذرے کے برابر بھی اللہ تعالی کی حکم عدولی نہیں کرتا، بلکہ سب کے سب فرشتے اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہیں، تو اس سے مسلمان کو اللہ تعالی کی ربوبیت اور الوہیت کے درجۂ کمال کا علم ہوتا ہے۔
اگر دنیا میں کسی بادشاہ کی فوج اور رعایا کی کثرت کے باوجود اس بادشاہ کی کامل اطاعت اس بات کی دلیل ہیں کہ واقعی اس کی بادشاہت کامل ہے، اور اس کا ان پر مکمل کنٹرول بھی ہے ، ساری رعایا اس کی تابعدار اور فرمانبردار بھی ہے۔ تو یہی بات اللہ تعالی کے حق میں اس سے بھی اچھے اور جامع انداز میں ثابت ہوتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی تو ان فرشتوں کا خالق بھی ہے، اللہ تعالی نے اس کا بیان کچھ یوں فرمایا ہے کہ: وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ * لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ* يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ * وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ ترجمہ: وہ کہتے ہیں کہ: رحمن نے اولاد بنائی ہے! وہ تو اولاد سے پاک ہے، بلکہ فرشتے تو اس کے معزز بندے ہیں٭ وہ اس کے آگے بات بھی نہیں کرتے بلکہ وہ اسی کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ ٭ اللہ ان بندوں کے آگے کے احوال کو بھی جانتا ہے اور بعد والے احوال کو بھی۔ اور وہ فرشتے صرف اسی کے حق میں سفارش کر سکیں گے جس کے لئے اللہ راضی ہو اور فرشتے ہمیشہ اس کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں۔٭ اور ان میں سے کوئی اللہ کی بجائے خود الوہیت کا دعوی کرے تو ہم اسے جہنم کا بدلہ دیں گے ، اور ہم ظالموں کو ایسے ہی بدلہ دیتے ہیں۔ [الانبیاء: 26 - 29]
اسی طرح وحی کی وہ نصوص جو فرشتوں کے وجود اور ان کے ذمیہ امور پر دلالت کرتی ہیں ان پر غور و فکر کرنے سے مسلمان میں اللہ تعالی کا کمال درجے کا خوف اور خشیت پیدا ہوتی ہے، اور ساتھ ہی اللہ تعالی سے محبت اور امید بھی بندھتی ہے۔
مثلاً: جب عذاب دینے والے فرشتوں کے متعلق گفتگو کرنے والی نصوص کو پڑھے، بندوں کے اعمال احاطہ تحریر میں لانے والوں کے بارے میں پڑھے تو انسان کے دل میں اللہ تعالی کی خشیت بڑھتی ہے۔
دوسری طرف جب رحمت والے اور محافظ فرشتوں کے متعلق نصوص کا مطالعہ کرے تو اللہ تعالی سے محبت اور امید بڑھتی ہے، انسان اللہ تعالی کی مغفرت کا امیدوار بن جاتا ہے۔ تو مجموعی طور پر انسان اپنے اندر وہ ایمان پیدا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے جس کا مسلمان کو حکم دیا گیا ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ، تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ترجمہ: یقیناً ہماری آیات پر وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں ان آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں، اور اپنے رب کی تسبیح کرتے ہوئے حمد بیان کرتے ہیں اور حق بات تسلیم کرنے سے تکبر نہیں کرتے۔ ٭ ان کے پہلو بستروں سے دور رہتے ہیں در حالیکہ وہ اپنے رب کو خوف اور امید سے پکار رہے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہوتا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ [السجدۃ: 15 - 16]
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرشتوں پر ایمان نہایت مفید نتائج کا حامل ہوتا ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
پہلا: اللہ تعالی کی عظمت ، قوت، اور عظیم سلطنت کا علم حاصل ہوتا ہے؛ کیونکہ اتنی بڑی مخلوق کا خالق اس سے بھی کہیں بڑا طاقتور ہو گا۔
دوسرا: انسان اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے بنی آدم کا کس قدر خیال رکھا ہے کہ اللہ تعالی نے ان فرشتوں میں سے ہر انسان کی حفاظت پر انہیں مامور کیا ہوا ہے، یہ فرشتے اس کے اعمال لکھتے ہیں، اور ان کے مفاد کی خاطر دیگر امور سر انجام دیتے ہیں۔۔۔ " ختم شد
"مجموع الفتاوى" (6 / 89)
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ "کراما کاتبین " کی تخلیق کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالی کے سامنے کوئی چیز مخفی نہیں ہے، ہم خفیہ اور اعلانیہ کچھ بھی کریں اللہ تعالی جانتا ہے پھر ان فرشتوں کو کیوں پیدا کیا؟:
"اس حوالے سے حکمت یہ ہے کہ: اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے تمام چیزوں کو کس طرح منظم کیا ہوا ہے، اور انسانوں کی ادارت کے لیے کتنا زبردست نظام قائم کیا کہ اللہ تعالی نے بنی نوع آدم کے افعال اور اقوال کو لکھنے کے لیے معزز فرشتے مقرر فرمائے، جو انسانوں کے سارے امور لکھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالی کو تو انسانوں کے اعمال کا انہیں سر انجام دینے سے پہلے ہی علم ہوتا ہے۔
لیکن پھر بھی یہ سب کچھ اس لیے کہ اللہ تعالی کا اس انسان کے لیے انتظام و انصرام واضح ہو، کہ اللہ تعالی نے اس انسان کے افعال و اقوال کو محفوظ بنانے کے لیے کتنا بڑا نظم وضع فرمایا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کا نظام نہایت ہی محکم اور منظم انداز سے چلایا جا رہا ہے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (1 / 185)
واللہ اعلم