اول:
جمہور فقہائے کرام موزوں پر مسح کرنے کے لیے انہیں مکمل وضو کر کے پہننے کی شرط لاگو کرتے ہیں، انہوں نے اس شرط کو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے کشید کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "میں ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سفر میں تھا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے موزے اتارنے کے لیے جھکا ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (انہیں چھوڑ دو، کیونکہ میں نے انہیں طہارت کی حالت میں پہنا ہے۔) تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں موزوں پر مسح فرمایا۔" اس حدیث کو امام بخاری: (206) اور مسلم : (274) نے روایت کیا ہے۔
جبکہ داود ظاہری اس بات کے قائل ہیں کہ صرف دونوں قدموں کا پاک ہونا کافی ہے۔
جمہور علمائے کرام کے موقف کے تائید سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے، آپ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "ہم ایک لشکر میں شامل تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہم جوئی کے لیے بھیجا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم موزوں پر مسح کریں بشرطیکہ ہم نے موزوں کو مکمل وضو کرنے کے بعد پہنا ہو۔ تین دن اور رات [تک مسح کر سکتے ہیں] جب سفر میں ہوں اور ایک دن رات جب مقیم ہوں۔ نیز موزوں کو بول و براز کے لیے نہ اتاریں، تاہم جنابت کی صورت میں اتار کر غسل کریں گے، اس کے علاوہ نہیں۔" اس حدیث کو مصنف عبد الرزاق : (793)، صحیح ابن خزیمہ: (193) اور ابن حبان: (1325) نے روایت کیا ہے۔ نیز البانیؒ اور شعیب الاناؤوط نے اسے ابن حبان کی تخریج میں حسن قرار دیا ہے۔
اسی روایت کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے سنن الکبری : (1/ 423) میں روایت کیا ہے لیکن اس کے عربی الفاظ میں "طہور" کی بجائے "طہر" کا لفظ ہے [دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ مترجم] ۔ اس روایت کی سند کو امام نووی رحمہ اللہ نے المجموع (1/ 512) میں جید قرار دیا ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے آپ خالد الشلاحی کی کتاب: "التبيان في تبويب وتخريج بلوغ المرام" (2/47-51) کا مطالعہ کریں۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"میں نے مصنف عبد الرزاق کی روایت کا تذکرہ امام مزنی رحمہ اللہ کے سامنے کیا تو انہوں نے کہا: یہ روایت ہمارے شاگردوں کو سنائیں؛ کیونکہ امام شافعی کی اس مسئلے میں اس سے قوی کوئی دلیل نہیں ہے۔" ختم شد
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی حدیث اگرچہ صحیح ہے، لیکن امام بخاری کی شرط پر نہیں ہے، تاہم اس باب میں ذکر کردہ روایت اس بات کی دلیل بنتی ہے کہ موزے وغیرہ پہنتے ہوئے طہارت شرط ہے۔
اور مزنی رحمہ اللہ نے مسئلے میں اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ : امام شافعی اور جمہور اہل علم طہارت سے مراد شرعی وضو لیتے ہیں، جبکہ داود ظاہری کہتے ہیں کہ اگر موزے پہنتے ہوئے دونوں قدموں پر نجاست نہیں لگی ہوئی تھی تو پھر بھی اس پر مسح کرنا جائز ہے [ان کے ہاں وضو شرط نہیں ہے۔] ۔" ختم شد
فتح الباري (1/ 309)
مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہو جاتا ہے کہ جمہور اہل علم موقف صحیح ہے، اور ان کی دلیل بھی مضبوط ہے کہ موزے پہنتے ہوئے مکمل وضو ہونا ان پر مسح کرنے کے لیے شرط ہے۔
واللہ اعلم