صوفی اپنے ولیوں کے بارے میں نظریہ رکھتے ہیں کہ وہ کائنات کے مختار کل ہیں!!

سوال: 286288

جب ہم صوفیوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا اولیاء نفع و نقصان کے مالک ہیں؟ تو وہ سیدھا کہہ دیتے ہیں: بالکل ، اور وہ یہ جواب دیتے ہوئے اللہ کے اذن کا تذکرہ تک نہیں کرتے، اور جب ہم ان کا رد کرتے ہیں تو آگے سے کہہ دیتے ہیں کہ : اللہ کے اذن سے نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ تو کیا ان کا یہ کہنا بھی شرک اصغر یا اکبر میں شمار ہو گا؟ کیونکہ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے اذن کا تذکرہ بھی اپنی جان چھڑانے کے لیے کرتے ہیں، کیونکہ وہ اولیاء کے بارے میں صرف خیر کا سبب ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتے، بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اولیاء ہی خیر سے نوازتے ہیں۔

جواب کا خلاصہ

غالی صوفیوں کا ماننا ہے کہ ان کے اولیا کائنات کے امور چلاتے ہیں، ان کے پاس نفع و نقصان دینے کا اختیار بھی ہے، ان کے ولی "کن" کہہ کر کام پورے کر دیتے ہیں۔ یہ دعوی صریح کفر اکبر اور اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے، بلکہ ان کا یہ شرک ابو جہل اور دیگر عرب مشرکوں کے شرک سے بھی بڑا شرک ہے۔ اگر وہ یہ بھی کہیں کہ ان کے اولیاء اللہ کے اذن سے کائنات کے امور میں چلاتے ہیں تب بھی انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ ان کی یہ بات بھی عرب مشرکوں کے دعوے جیسے ہی ہے جو تلبیہ کہتے ہوئے کہا کرتے تھے:{ ۔۔۔ لبيك لا شريك لك ، إلا شريكا هو لك ، تملكه وما ملك } ترجمہ: تیرا کوئی شریک نہیں، ماسوائے اس شریک کے جس کو تو خود اپنا شریک بنائے۔ تو یہ ایسے ہی ہے جیسے ان کافروں نے کہا ہو کہ: یہ اللہ کے اذن سے اللہ کے شریک ہیں۔

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

غالی قسم کے صوفی اپنے اولیاء کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس جہان کے کام چلا رہے ہیں، اس کائنات میں جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں۔ اب اگر کوئی بھی شخص انصاف کی نگاہ سے ان کی بات پر غور و فکر کرے تو وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ یہ لوگ ضلالت اور گمراہی میں اتنے بڑھ چکے ہیں کہ وہ اپنے اولیاء کو الوہیت کے درجے تک پہنچانا چاہتے ہیں، چنانچہ لوگ ان اولیاء کے سامنے سرِ تسلیم خم رکھیں، بلکہ ان ولیوں کی پرستش بھی کریں!!

صوفیوں کے ہاں ان کے اولیاء کے مختلف درجات ہیں، ان کے ہاں ہر ولی کو لوگوں کے کسی نہ کسی کام کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، سب سے اعلی ترین درجہ قطب کا ہے، قطب کے مقام پر موجود ولی تمام آسمانوں اور زمین کے سارے امور چلاتا ہے!!

اس لیے ان کے ہاں افضل ترین ولی "اقطاب" ہوتے ہیں، ان کے ہاں قطب کو "غوث" بھی کہا جاتا ہے؛ کیونکہ غوث ہی مشکل کشائی اور حاجت روائی کا کام کرتا ہے۔!

ان کے ہاں قطب کے درجے پر فائز ولی کو دنیا و آخرت کے تمام امور میں کھلے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔

جیسے کہ محسن بن علوی سقاف کی جمع و ترتیب کردہ کتاب: "كنوز السعادة الأبدية" (ص128) میں ہے کہ: " صوفی شیخ عبد العزیز کا دعوی تھا کہ: مجھے تو جنوں تک بھی اختیارات حاصل ہیں، بلکہ حور عین بھی میرے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرتیں۔!!

انہوں نے ہی ایک بار اپنے مرید کو کہا تھا کہ: "اگر تم یہ سمجھو کہ پوری دھرتی کی بلیاں بھی میری مرضی کے بارے بغیر چوہے کھا جاتی ہیں تو تم میری گستاخی کے مرتکب ہو جاؤ گے۔" !! ختم شد

صوفی یہ بھی نظریہ رکھتے ہیں کہ قطب اور ابدال وغیرہ اللہ تعالی اور مخلوق کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں، چنانچہ مخلوق کو کوئی بھی رزق، مدد، حتی کہ دشمنوں کے خلاف فتح ۔۔۔ وغیرہ بھی انہی اقطاب اور ابدال کے ذریعے ہی ملتی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سائل کا "قطب، غوث، فرد اور جامع" کے بارے میں سوال ہے، تو اس طرح باتیں کچھ لوگ کرتے ہیں اور ان القاب کی من مانی وضاحت کر کے اسے اسلام سے منسوب کرتے ہیں، مثلاً: یہ لوگ "غوث" کے متعلق کہتے ہیں کہ تمام مخلوقات کی مدد اسی غوث کے ذریعے سے کی جاتی ہیں، کسی کی فتح ہو یا رزق کی بات ان کے بغیر نہیں ہوتی! کچھ تو کہتے ہیں کہ فرشتوں سے لے کر سمندروں کی مچھلیوں تک کی مدد بھی اسی "غوث" کے ذریعے سے ہوتی ہے۔!!

ان لوگوں کی یہ بات عیسائیوں کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بات جیسی ہے، اسی قسم کی باتیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کرنے والے کچھ لوگ بھی کیا کرتے ہیں۔

ایسی باتیں بالکل واضح طور پر کفر ہے، اگر کوئی ایسی باتیں کرتا ہے تو اس سے توبہ کروائی جائے گی، چنانچہ اگر وہ توبہ کر لے تو ٹھیک وگرنہ اسے قتل کر دیا جائے گا؛ کیونکہ کوئی بھی مخلوق چاہے وہ فرشتہ ہو یا انسان اس کی مدد و نصرت اس کے ذریعے سے نہیں ہوتی۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (27/96)

اسی طرح کچھ غالی قسم کے لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ : ان کے اولیاء کسی بھی کام کے لیے "کن" کہہ دیں تو وہ کام فوری ہو جاتا ہے!!

جیسے کہ ابن ضیف اللہ صوفی اپنی کتاب "طبقات"(ص272، 277) میں اپنے کسی ایک شیخ اور ولی کے بارے میں رقم طراز ہے کہ: "اللہ تعالی نے اسے کونی درجہ بھی عطا کیا ہوا تھا، اور وہ ہے کن فیکون کی زبان۔ [یعنی وہ کن کہہ کر سارے کام کر دیا کرتا تھا۔!!]" ختم شد

اسی طرح تجانی صوفی نے لکھا ہے کہ:
"یقیناً اللہ تعالی نے انہیں خلافتِ عظمی عطا کی ہوئی ہے، اور انہیں اپنی بادشاہت میں عمومی اختیارات تفویض کیے ہوئے ہیں کہ وہ خدائی بادشاہت میں جو چاہیں کر سکتے ہیں، اللہ تعالی نے انہیں "کلمہ تکوین " بھی عطا کیا ہوا ہوتا ہے، چنانچہ وہ کسی بھی کام کے لیے "کن" کہہ دیں تو وہ کام فوری ہو جاتا ہے، موجودات میں کوئی بھی چیز ان کے لیے ناممکن نہیں ہوتی۔" ختم شد
"جواهر المعانی" (2/76-77)

اسی طرح شعرانی بھی اپنی کتاب "طبقات"(2/88) میں کسی ولی کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ: "آپ اُن یکتائے زمانہ اولیاء میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے وجود بخشا اور انہیں کائنات کے امور میں تصرف کرنے کا اختیار دیا ہے۔" ختم شد

صوفیوں کے جاہل اور گمراہ سرغنے اللہ تعالی سے دعائیں مانگتے رہے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں یہ منزلت عطا فرمائے کہ وہ کسی بھی کام کے لیے "کن" کہیں تو وہ کام ہو جائے۔!!

چنانچہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"کچھ ایسی دعائیں بھی ہیں جنہیں مانگنا بھی کفر ہو گا : مثلاً: کوئی دعا کرتے ہوئے کوئی ایسی چیز طلب کرے جو عقلا قطعی طور پر ناممکن ہو اور اللہ تعالی کی شان میں خلل ڈالنے کا باعث بھی ہو، مثلاً: کوئی شخص اللہ تعالی سے ملنے کا شوق اپنے اندر اتنا بڑھا لے اور پھر اللہ تعالی سے دعا کرے کہ اللہ تعالی کسی مخلوق میں حلول کر جائے اور پھر اس کے ذریعے سے اللہ تعالی سے ملاقات بھی ہو جائے، یا یہ دعا مانگے کہ اسے دنیا میں من چاہا تصرف کرنے کا اختیار کر دے۔

اس پر امام قرافی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ایسی دعاؤں کا مطالبہ کچھ جاہل صوفیوں کی طرف سے کیا جا چکا ہے، یہی صوفی حضرات کہتے ہیں کہ: فلاں بزرگ کو کلمہ "کن" کی طاقت دی گئی ہے، یہ تو دعائیں بھی کرتے ہیں کہ انہیں کلمہ "کن" کی طاقت دی جائے، وہی کلمہ کن جس کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا کہ: إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ ‌كُنْ ‌فَيَكُونُ ترجمہ: یقیناً جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لے تو وہ صرف یہ کہتا ہے کہ: "کن" یعنی : ہو جا، تو وہ ہو جاتا ہے۔[یس: 82] اب اس دعا کا تقاضا یہ ہے کہ یہ شخص اللہ تعالی سے اللہ کی ملکوت میں شراکت طلب کر رہا ہے، جو کہ کفر ہے۔" ختم شد
"الإعلام بقواطع الإسلام" (ص219)

علامہ قرافی رحمہ اللہ کی بات حرف بہ حرف سوال میں مذکور دعوے پر منطبق ہوتی ہے کہ ان کا دعوی ہے کہ وہ اللہ کے اذن سے کائنات میں تصرف کرتے ہیں، اب جو شخص اللہ تعالی سے یہ دعا مانگے کہ اللہ تعالی اسے یہ منزلت عطا کرے تو یہ شخص اللہ تعالی سے شراکت داری کا مطالبہ کر رہا ہے!!

اب اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ بشر میں سے کسی کو اللہ تعالی نے یہ مقام و مرتبہ عطا کیا ہے تو یہ ایسے ہی ہے کہ گویا وہ اللہ تعالی کے بارے میں یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوق میں سے کسی کو اپنا شریک بنا لیا ہے! اور یہ واضح طور پر کفر اکبر ہے، یہ وہی شرک ہے جو مشرک عربوں کے تلبیہ میں ہوا کرتا تھا، بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ قبیح صورت رکھتا ہے۔

چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "مشرکین تلبیہ کہتے ہوئے کہتے تھے: { لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ } یعنی: میں بار بار حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے: ({وَيْلَكُمْ ! قَدْ، قَدْ} یعنی: تمہارے لیے ویل ہو! بس آگے مت کہنا، آگے مت کہنا)!! لیکن وہ آگے بھی کہتے: {إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ} یعنی: مگر تیرا شریک وہ ہے جس کا مالک بھی تو ہی ہے، اور وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے۔ تو یہ بات مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے۔" اسے مسلم : (1185) نے روایت کیا ہے۔

علامہ نووی رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح میں کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: { وَيْلَكُمْ ! قَدْ، قَدْ} قاضی رحمہ اللہ کے مطابق: یہ لفظ دال پر جزم کے ساتھ بھی روایت کیا گیا ہے، اور اسی طرح دال پر دو زیر کے ساتھ بھی روایت کیا گیا ہے، اس کا معنی ہے کہ: تمہیں بس اتنا تلبیہ کہنا ہی کافی ہے، بس اسی پر اکتفا کرو اس سے زیادہ مت کہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے الفا ظ یہاں تک مکمل ہو گئے، پھر راوی مشرکین کے الفاظ بیان کرتے ہوئے ان کے تلبیہ کے بقیہ الفاظ ذکر کرتے ہیں کہ {إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ} ، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انہیں فرماتے تھے کہ تم صرف اتنا ہی کہو کہ: { لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ } ۔واللہ اعلم" ختم شد

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموعة الرسائل والمسائل" (1/56) میں کہتے ہیں:
"قرآن کریم شروع سے لے کر آخر تک ، تمام الہامی کتب اور رسولوں کا سلسلہ نبوت یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا جائے، اللہ تعالی کے ساتھ کوئی بھی معبود نہ بنایا جائے۔ "الٰہ عربی زبان میں ایسی ذات کو کہتے ہیں جس کی دل والہانہ انداز سے عبادت کرے، اس سے مدد طلب کرے، اس ذات کا احترام اور اکرام کرے، اس کا ڈر اور خوف رکھنے کے ساتھ امید بھی لگائے۔ جیسے کہ مشرکین اپنے معبودان باطلہ کے ساتھ رکھتے ہیں۔ مشرک اگر اپنے الٰہ کو مخلوق اور بنایا گیا بھی سمجھے جیسے کہ مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے تلبیہ پڑھتے اور پکارتے تھے: { لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ} یعنی: میں بار بار حاضر ہو تیرا کوئی شریک نہیں، البتہ وہ تیرا شریک ہے جس کا مالک بھی تو ہی ہے اور وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے۔" ختم شد

ایسے ہی مجموع الفتاوی: (3/302) میں مزید کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے عقیدہ توحید سمجھانے کے لیے فرمایا: ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ هَلْ لَكُمْ مِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنْتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ ‌كَخِيفَتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ
ترجمہ: اللہ تمہارے لیے ایک مثال بیان کرتا ہے جو خود تمہی سے تعلق رکھتی ہے۔ تمہارے کچھ غلام ہوں اور جو کچھ ہم نے تمہیں مال و دولت دے رکھا ہے اس میں تم اور وہ غلام برابر کے شریک ہو جائیں تو کیا تم ایسا گوارا کر سکتے ہو؟ تم تو ان سے ایسے ہی ڈرو گے جیسے اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو۔ [الروم: 28] یعنی تم غلاموں سے بھی اسی طرح ڈرتے ہو جیسے تم آزاد ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔۔۔

تو یہاں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ کوئی مخلوق یہ پسند نہیں کرتی کہ اس کا غلام ہی اپنے مالک کے ساتھ شریک بن جائے کہ نوبت یہاں تک پہنچے کہ انسان اپنے غلام سے ایسے ڈرے جیسے اپنے ہم پلہ آزاد سے ڈرتا ہے، بلکہ تم تو بات یہاں تک آنے ہی نہیں دیتے کہ تمہارا غلام تمہارا برابر کا شریک بن جائے۔

تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ : تم یہ کیسے پسند کر لیتے ہو کہ تم میری ہی مخلوق اور مملوک کو میرا شریک بنا دو؟ کہ اس کو بھی اسی طرح پکارا جائے اور اس کی پرستش کی جائے جیسے مجھے پکارا جاتا ہے اور میری بندگی کی جاتی ہے۔ جیسے کہ مشرک لوگ طواف کے دوران تلبیہ کہتے ہوئے پڑھا کرتے تھے: { لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ} یعنی: میں بار بار حاضر ہو تیرا کوئی شریک نہیں، البتہ وہ تیرا شریک ہے جس کا مالک بھی تو ہی ہے اور وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے۔" ختم شد

الشیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن آل الشیخ رحمہ اللہ نے ایسے لوگوں کے دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے جو کہتے ہیں کہ اس صورت میں مُردوں سے دعائیں مانگنا جائز ہے جب تک انسان انہیں پکارتے ہوئے اور ان سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ سمجھے کہ حقیقی مشکل کشا اور حاجت روا صرف ایک اللہ تعالی کی ذات ہے ۔ چنانچہ آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بیوقوف شخص ایک اضافی قید لگا تا ہے، اس کا کہنا ہے کہ: اس وقت تک کوئی شخص شرک میں مبتلا نہیں ہو سکتا جب تک یہ نظریہ اور عقیدہ نہ اپنا لے کہ کوئی اللہ کے بغیر ہی تن تنہا مدد کر سکتا ہے۔

حالانکہ دورِ جاہلیت میں مشرکین جب طواف کرتے ہوئے تلبیہ پڑھتے تھے کہ: { لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ} یعنی: میں بار بار حاضر ہو تیرا کوئی شریک نہیں، البتہ وہ تیرا شریک ہے جس کا مالک بھی تو ہی ہے اور وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے۔ تو یہ مشرک لوگ بھی کسی شریک کے اللہ سے بالکل الگ تھلگ ہونے کا نظریہ نہیں رکھتے تھے، وہ بھی یہی کہتے تھے کہ جسے اللہ تعالی اختیار دے دے۔ تو اس طرح تو مکے کے یہ مشرک بھی مشرک نہیں ٹھہریں گے!!" ختم شد
"تحفة الطالب والجليس في كشف شبه داود بن جرجيس" (ص128)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات یقینی طور پر واضح ہو جائے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ساری انسانیت میں سب سے اعلی مقام پر فائز ہونے کے باوجود بھی اس مرتبے پر فائز نہیں تھے۔ بلکہ جب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کرتے ہوئے قدرے غلو سے کام لیا اور کہا: اے محمد! اے ہمارے سردار، اور ہمارے سردار کے صاحب زادے، اے ہم میں سے بہترین اور ہم میں سے بہترین کے صاحب زادے۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگو! تقوی اپناؤ، تمہیں شیطان کہیں بہکا نہ دے، میں محمد بن عبد اللہ ہوں، اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول ہوں۔ اللہ کی قسم مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ تم مجھے میرے اس مقام سے بڑھاؤ جو مقام مجھے اللہ تعالی نے دیا ہے۔) اس حدیث کو امام احمد: (12141) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے سلسلہ احادیث صحیحہ: (1097) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (تم میری شان میں اس طرح غلو مت کرو جیسے نصاری نے ابن مریم کے بارے میں غلو کیا تھا؛ یقیناً میں تو اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے تم مجھے اللہ کا بندہ اور اللہ کا رسول کہو۔) اسے بخاری: (3445) نے روایت کیا ہے۔

تو ایسا کہیں بھی نہیں ملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی کسی چیز کو کن کہا ہو اور وہ چیز ہو گئی ہو، ایسی کسی بات کا کہیں کوئی تذکرہ تک نہیں ملتا۔

اسی طرح صحابہ کرام میں سے کسی کے بارے میں بھی ایسی کوئی بات نہیں ملتی ۔

بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالی سے دعائیں مانگتے تھے، اللہ تعالی کے سامنے گریہ زاری فرماتے، نیز دعا کرتے ہوئے اصرار بھی کرتے کہ اللہ تعالی آپ کی دعا قبول فرما لے، بارگاہِ الہی میں گڑگڑا کر دعائیں کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مشہور ہے، اور اس کے متعدد واقعات بھی ہیں، ان میں سے ایک غزوہ بدر سے متصل پہلے دعا کا مشہور واقعہ ہے۔

چنانچہ صحیح مسلم: (1763) میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : مجھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ جب بدر کا دن تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے، اور آپ کے ساتھ تین سو انیس صحابہ کرام تھے، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم قبلہ رخ ہوئے، اور پھر اپنے ہاتھ پھیلائے اور بلند آواز سے اپنے رب کو بھر پور انداز سے پکارنے لگے: اَللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي ، اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي ، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ "یا اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا اسے میرے لیے پورا فرما۔ یا اللہ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا مجھے عطا فرما۔ یا اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین میں تیری بندگی نہیں ہو گی۔" آپ قبلہ رخ ہو کر اپنے ہاتھوں کو پھیلائے مسلسل اپنے رب کو پکارتے رہے حتی کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گئی۔ اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے، چادر اٹھائی اور اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ کے ساتھ چمٹ گئے اور کہنے لگے: اللہ کے نبی! آپ کی اپنے رب سے الحاح کے ساتھ دعا بہت ہو گئی ہے۔ وہ جلد ہی آپ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ ‌مُرْدِفِينَ ترجمہ: جب تم لوگ اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں ایک دوسرے کے پیچھے اترنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔ [الانفال: 9] پھر اللہ نے فرشتوں کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمائی۔"

یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اللہ تعالی سے دعائیں کر رہے ہیں، اللہ تعالی سے ہی مدد طلب کر رہے ہیں، آپ نے تو کبھی بھی کسی چیز کے رونما ہونے کے لیے "کن" کا لفظ نہیں کہا۔

بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالی سے دعائیں مانگتے تھے، اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا اللہ تعالی کے ہاں قبول نہ ہوتی، اس میں بھی اللہ تعالی کی طرف سے حکمت ہوتی تھی۔

جیسے کہ صحیح مسلم: (2890) میں ہی سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بنو معاویہ کی مسجد کے قریب سے گزرے تو آپ اس میں داخل ہوئے اور وہاں دو رکعتیں ادا فرمائیں ۔اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ نے اپنے رب سے بہت لمبی دعا کی پھر آپ نے ہماری طرف رخ کیا اور فرمایا:" میں نے اپنے رب سے تین دعائیں مانگیں ۔تو اللہ تعالی نے دو مجھے عطا فرما دیں اور ایک مجھ سے روک لی۔ میں نے اپنے رب سے یہ مانگا کہ وہ میری امت کو قحط سالی سے ہلاک نہ کرے تو اللہ تعالی نے مجھے یہ دعا عطا فرما دی اور میں نے اللہ تعالی سے مانگا کہ وہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کرے تو اللہ تعالی نے یہ(بھی) مجھے عطا فرما دی ، پھر میں نے اللہ تعالی سے یہ سوال کیا کہ ان کی آپس میں لڑائی نہ ہو تو اللہ تعالی نے میری یہ دعا قبول نہیں فرمائی۔

الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (1/26) میں کہتے ہیں:
"حق سے متصادم عقائد: کچھ صوفی حضرات یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ چند نام نہاد اولیاء؛ اللہ تعالی کے شریک ہیں، کائنات کے امور چلانے کا اختیار رکھتے ہیں، دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس میں انہیں بھی اختیارات حاصل ہیں، انہیں یہ صوفی لوگ قطب، وتد اور غوث وغیرہ جیسے نام دیتے ہیں، انہوں نے اپنے صوفی معبودوں کو ایسے ہی خود ساختہ نام دئیے ہوئے ہیں، حالانکہ یہ توحید ربوبیت میں قبیح ترین شرک ہے، بلکہ یہ تو دورِ جاہلیت کے عربوں کے شرک سے بھی گھٹیا شرک ہے؛ کیونکہ عرب مشرکوں نے توحید ربوبیت میں کسی کو شریک نہیں بنایا تھا، ان کا شرک صرف توحید الوہیت سے تعلق رکھتا تھا، پھر عرب مشرک لوگ خوش حالی میں شرک کرتے تھے لیکن جب وہ مشکل میں پھنستے تھے تو صرف اللہ تعالی کو ہی پکارتے تھے، جیسے کہ اللہ تعالی نے سورت العنکبوت میں فرمایا: فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ ترجمہ: پس جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو دعا صرف اللہ تعالی کے لیے عبادت خالص کرتے ہوئے کرتے ہیں، لیکن جب اللہ انہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو وہ غیر اللہ کو شریک بنانے لگ جاتے ہیں۔[العنکبوت: 65]

توحید ربوبیت کے حوالے سے مشرکین بھی اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ صرف اللہ تعالی ہی رب اور خالق ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:  وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ترجمہ: اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ: کس نے انہیں پیدا کیا ہے؟ تو وہ لازمی کہیں گے: اللہ نے۔ [الزخرف: 87]

اسی طرح ایک اور جگہ پر فرمایا:
قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
ترجمہ: کہہ دیجیے! کون ہے جو آسمان اور زمین سے تمہیں رزق دیتا ہے؟ کون ہے جو سماعت و بصارت کا مالک ہے؟ اور کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے، اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون ہے جو تمام معاملات کا بندوبست کرتا ہے؟ تو وہ سب کہیں گے: اللہ ۔ تو آپ کہیں: پھر تم شرک سے بچتے کیوں نہیں ہو؟[یونس: 31]

اس معنی اور مفہوم میں اور بھی بہت سے آیات ہیں۔

لیکن بعد میں آنے والے مشرک پہلے والے مشرکوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے، اس کی دو شکلیں ہیں، پہلی صورت: بعد میں آنے والے کچھ مشرک تو ربوبیت میں بھی شرک کرنے لگے ہیں۔ دوسری صورت: بعد والے مشرک خوشحالی اور فراخی میں بھی شرک کرنے لگے ہیں۔ ایسے لوگوں کے درمیان رہنے والا اور ان کی سرگرمیوں کو پرکھنے والا شخص ان چیزوں کو واضح طور پر جانتا ہے، اسے پتہ ہے کہ مصر میں بدوی اور حسین وغیرہ کی قبروں پر کیا کچھ ہوتا ہے، عدن میں عیدروس کی قبر پر کیا کچھ کیا جاتا ہے، یمن میں ھادی کی اور شام میں ابن عربی کی قبر پر لوگ کیا کرتے ہیں، اسی طرح عراق میں شیخ عبد القادر جیلانی کی قبر سمیت عوام الناس کے ہاں مشہور قبروں پر کیا کچھ کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے اللہ عز و جل کی عبادت کرنے کی بجائے ان قبروں کی عبادت شروع کی ہوئی ہے، ان کی ان حرکتوں کی مذمت کرنے والے بہت ہی کم لوگ ہیں جو انہیں بتلائیں کہ حقیقی توحید کیا ہے جس توحید کو دے کر اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دے کر ارسال فرمایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے انبیائے کرام کو جو عقیدہ توحید دے کر بھیجا گیا لوگوں کو اس سے آشنا کرنے والے لوگ بہت ہی کم ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو رشد و ہدایت سے نوازے، انہیں ہدایت کی طرف بلانے والے داعیانِ حق بڑی تعداد میں نصیب فرمائے، نیز اللہ تعالی مسلم حکمرانوں اور علمائے کرام کو توفیق دے کہ ان شرکیہ امور کا خاتمہ کریں، ایسے شرکیہ امور کے ذرائع اور وسائل کو بھی ختم کریں، یقیناً اللہ تعالی دعائیں سننے والا اور قریب ہے۔" ختم شد

کچھ صوفی حضرات یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے ولی بارش بھی نازل کر سکتے ہیں اور بیماروں کو شفا یاب بھی کر سکتے ہیں۔

اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ اتنے اختیارات تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھی نہیں تھے، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی خشک سالی کا سامنا ہوتا زمینیں بنجر ہو جاتیں اور بارشیں نہ ہوتیں تو بارش نازل کرنے کی دعا اللہ تعالی سے فرماتے تھے، یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز استسقا کے لیے کھلے میدان میں جاتے اور اللہ تعالی سے بارش نازل کرنے کی دعا فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بارش کو مخاطب کر کے بارش نازل ہونے کا حکم جاری نہیں فرمایا ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے بارش سے کہا ہو: بارش ہو جا، تو بارش ہونے لگ گئی ہو۔!

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی بیمار ہو جایا کرتے تھے جیسے کہ عام لوگ بیمار ہو جاتے ہیں، بلکہ بسا اوقات آپ کو لوگوں سے زیادہ تکلیف ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب کبھی سر درد یا بخار کی کیفیت کا عارضہ لاحق ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالی سے شفا طلب فرماتے تھے اور دعا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود اپنے آپ کو دم بھی کرتے تھے، ایک بار سیدنا جبریل علیہ السلام نے نازل ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سورت الفلق اور سورت الناس کے ذریعے دم کیا تھا۔

لیکن ادھر صوفی جاہل اپنے ولیوں کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ان کے ولی مردوں کو بھی زندہ کر دیتے ہیں!!

وہ تو اپنے ولیوں میں یہ طاقت بھی مانتے ہیں کہ ان کی طاقت سے سوکھے درخت کے فوری پتے اگ جائیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سوکھا درخت پھل دار ہو جائے۔!!

دیکھیں: "جواهر المعاني" (2/150/151)

صوفی لوگ اپنے ولیوں کے بارے میں یہ نظریہ بھی رکھتے ہیں کہ وہ کسی بھی گمراہ شخص کو راہ ہدایت صرف دکھا نہیں بلکہ اس پر چلا بھی سکتے ہیں، وہ کسی کافر کو ایمان اور اطاعت گزاری پر بھی چلا سکتے ہیں!

یعنی ان کا ولی جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے راہ رو کر دے!!

حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اتنی صلاحیت کسی بھی انسان کے پاس نہیں ہے! حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اتنی صلاحیت نہیں دی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے چچا ابو طالب کو ہدایت نہیں دے سکے، اور اسی حوالے سے یہ آیات نازل ہوئیں: إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ترجمہ: یقیناً آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، لیکن اللہ تعالی جسے چاہے ہدایت دے، وہ ذات ہدایت یافتہ لوگوں کو زیادہ جانتی ہے۔[القصص: 56]

پھر اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے چچا کے لیے استغفار کرنے سے بھی منع کر دیا اور فرمایا:
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُوْلِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
ترجمہ: نبی اور ایمان لانے والوں کے لیے یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ مشرکوں کے لیے استغفار کریں چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، بعد ازاں کہ جب انہیں پتہ چل جائے کہ وہ جہنمی ہیں۔ [التوبہ: 113]

صوفی حضرات کرامات کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب انہیں ان خرق عادت چیزوں سے نوازا ہے تو دیگر کاموں کا بھی اللہ تعالی نے انہیں اختیار دیا ہے۔ تو ان کی یہ بات بالکل ناکام کوشش اور دھوکا دہی ہے؛ کیونکہ ان دونوں باتوں میں واضح فرق ہے کہ کہا جائے: فلاں ولی کو اللہ تعالی نے کرامت سے نوازا ہے کہ فلاں مخصوص واقعہ میں ضرورت پڑی تو یہ کرامت ظاہر ہوئی۔ اور دوسری طرف یہ کہا جائے کہ: فلاں ولی اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ کائنات میں جو چاہے اپنی من مانی سے کر سکتا ہے! وہ کن کہہ کر کوئی بھی کام کر سکتا ہے! اس کے پاس علوی اور سفلی دونوں جہانوں کا اختیار ہے، وہ تمام موجودات کے بارے میں مطلق طور پر تصرف کی طاقت رکھتا ہے، اور کسی بھی وقت اور جگہ میں اپنی اس صلاحیت کو استعمال کر سکتا ہے، اپنی زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی!! بلکہ وہ تو یہاں تک دعوی کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد ولی کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے!!

الشیخ محمد رشید رضا رحمہ اللہ قبر پرست مُلّا سے بیان کرتے ہیں کہ: "یہ احباب مردہ ہوں یا زندہ ان سے دعا اور مشکل کشائی کا مطالبہ ہر دو صورت میں یکساں ہے؛ کیونکہ ان کے مردے بھی اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں، اور اپنی قبروں کے اندر اور باہر زندہ لوگوں جیسی سرگرمیاں سر انجام دیتے ہیں۔" !! ختم شد
"المنار"، ج3، م33، ص216

ایک اور صوفی کا کہنا ہے کہ: "ولیوں کے اختیارات مرنے کے بعد مزید زیادہ ہو جاتے ہیں۔!!" ختم شد
بریلویت، عقائد و تاریخ، صفحہ: (74)

قرآن کریم اول تا آخر اس قسم کی گمراہیوں کے رد سے بھرا ہوا ہے، نیز قرآن کریم میں اللہ تعالی کی وحدانیت، ملت ابراہیمی اور تمام انبیائے کرام کی دعوت توحید کو ثابت کیا گیا ہے۔

جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنْ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنْ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلا تَتَّقُونَ
ترجمہ: آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ " اللہ " تو ان سے کہیے کہ پھر تم شرک سے کیوں نہیں بچاؤ کرتے۔ [یونس: 31]

ایک اور مقام پر فرمایا:

قُلْ لِمَنْ الأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ * سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلا تَذَكَّرُونَ * قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ * سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلا تَتَّقُونَ * قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ * سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّا تُسْحَرُونَ
ترجمہ: کہہ دیجیے: زمین اور زمین میں جو کچھ ہے کس کا ہے؟ بتلاؤ اگر تم جانتے ہو؟ ٭ تو وہ کہیں گے اللہ کاہے، تو آپ کہیں: پھر تم نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے؟ ٭ کہہ دیجیے ساتوں آسمانوں کا پروردگار اور عرش عظیم کا پروردگار کون ہے؟ تو وہ کہیں گے اللہ ہے، تو آپ کہیں: پھر تم تقوی کیوں نہیں اپناتے؟٭ آپ ان سے کہیں: کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہو، وہی پناہ دے، اس کے مقابلے میں کسی کو پناہ نہ دی جا سکے؟ بتلاؤ اگر تم جانتے ہو؟ ٭ تو وہ کہیں گے اللہ ہے، تو آپ کہیں: پھر تم کہاں مسحور کی طرح بہکائے جا رہے ہو؟ [المؤمنون: 84 - 89]

علامہ صنع اللہ حنفی رحمہ اللہ ولیوں کے اس کائنات میں "مختار کل" ہونے کے دعوے کا رد کرتے ہوئے اپنی کتاب "سيف الله على من كذب على أولياء الله" (ص28-30) میں لکھتے ہیں:
"ان کا یہ دعوی کہ ولیوں کو زندگی میں اور پھر مرنے کے بعد بھی کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے ، اسے درج ذیل طرح کی تمام آیات مسترد کرتی ہیں:
أَإِلَهٌ ‌مَعَ ‌اللَّهِ ترجمہ: کیا اللہ کے ساتھ بھی کوئی الٰہ ہے؟ [النمل: 62]

أَلَا لَهُ ‌الْخَلْقُ ‌وَالْأَمْرُ ترجمہ: یقیناً وہ پیدا کرتا ہے اور اسی کا حکم چلتا ہے۔[الاعراف: 54]

لِلَّهِ مَا فِي ‌السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ترجمہ: آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اللہ کی مخلوق ہے۔[البقرة: 284]

وَلِلَّهِ مُلْكُ ‌السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ترجمہ: آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ کے لیے ہے۔[آل عمران: 189]

اسی طرح ایسی تمام آیات بھی اس دعوے کو مسترد کرتی ہیں جن میں آتا ہے کہ اللہ تعالی ہی ہر چیز کا خالق ہے، وہی اس کائنات کے امور چلا رہا ہے، اور وہی ہر چیز کا درست تخمینہ لگاتا ہے۔ جن آیات میں یہ ہے کہ کوئی بھی اللہ تعالی کا کسی بھی چیز میں کسی بھی انداز سے شریک نہیں ہے، بلکہ ہر چیز اللہ تعالی کی ملکیت اور قہر کے تابع ہے، وہی ان کے امور سنوارتا اور چلاتا ہے، وہی ان کا مالک ہے، وہ زندگی دیتا ہے اور مارتا ہے اور وہی پیدا کرتا ہے۔

اس طرح پہلے جتنی بھی مخلوقات گزری ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں اور ان کے بعد آنے والے بھی اسی میں شامل ہیں، اور اس پر تمام مسلمانوں اور مسلمانوں کے پیروکاروں کا اجماع بھی ہے، وہ اس بات کو ببانگ دہل اسی طرح بیان بھی کرتے ہیں جیسے وہ کلمہ لا الہ الا اللہ کا اظہار کرتے ہیں۔" ختم شد

آگے چل کر انہوں نے یہ بھی لکھا کہ:
"مرنے کے بعد کائنات کے امور میں مختار کل بنا دئیے جانے کا موقف تو زندگی میں مختار کل بنا دئیے جانے کے موقف سے بھی کہیں زیادہ بھدا اور برا ہے۔"

دائمی فتاوی کمیٹی کے فتاوی (1/574)میں ہے کہ:
کیا اولیاء کو کرامات دی جاتی ہیں؟ کیا آسمانوں اور زمین میں انہیں مختار کل ہونے کی صلاحیت تفویض کی جاتی ہے؟ کیا اولیاء قبروں میں جانے کے بعد دنیا میں زندہ لوگوں کی سفارش کرتے ہیں یا نہیں؟

جواب: کرامت خرق عادت چیز ہوتی ہے جو اللہ تعالی اپنے کسی بھی نیک اور صالح زندہ یا فوت شدہ کے ہاتھ پر ظاہر فرماتا ہے، جس میں اس نیک فرد کی تکریم کا پہلو ہوتا ہے، اس کے ذریعے اللہ تعالی مشکل کشائی فرماتا ہے یا حاجت روائی فرماتا ہے، یا حق بات کا بول بالا فرماتا ہے۔

لیکن کرامت کسی بھی نیک اور صالح شخص کے اختیار میں نہیں ہوتی کہ وہ جب چاہے اس کا ظہور کر دے، بالکل یہ ایسے ہی جس طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو معجزہ دکھانے کا اختیار نہیں ہوتا کہ جب چاہیں معجزہ دکھا دیں، بلکہ اس کے ظہور ہونے کا وقت اور انداز صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہوتا ہے، اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِنْ رَبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ
ترجمہ: اور وہ کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے معجزے کیوں نہیں نازل ہوتے؟ کہہ دے: معجزوں کے ظہور کا اختیار اللہ کے پاس ہے، اور میں تو صرف واضح طور پر ڈرانے والا ہوں۔ [العنکبوت: 50]

اسی طرح نیک لوگ بھی آسمانوں اور زمین میں کسی بھی قسم کے تصرف کا اختیار نہیں رکھتے، اور اگر ان کے پاس بھی کوئی اختیار ہے تو وہ اختیار دیگر لوگوں کے پاس عمومی طور پر موجود ہے، مثلاً: کھیتی باڑی کرنا، عمارت بنانا اور تجارت وغیرہ کرنا جیسے انسانی دائرہ کار میں آنے والے اعمال ، انسان یہ کام بھی اللہ تعالی کی توفیق سے کرتے ہیں۔

کوئی بھی نیک صالح فرد مرنے کے بعد قبر میں چلا جائے تو کسی بھی زندہ یا مردہ کے لیے شفاعت کا اختیار نہیں رکھتا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے شفاعت کے متعلق واضح فرما دیا ہے کہ:
قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا
ترجمہ: کہہ دیجیے! ہمہ قسم کی شفاعت کا اختیار صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ [الزمر: 44]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
ترجمہ: وہ لوگ اللہ کے سوا جسے بھی پکارتے ہیں وہ شفاعت کا اختیار رکھتے ہی نہیں ہیں۔ ہاں صرف وہ لوگ شفاعت کے حق دار ہیں جو علم رکھتے ہوئے حق کی گواہی دیں۔ [الزخرف: 86]

اسی طرح فرمایا:
مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ
ترجمہ: کون ہے جو اللہ کے ہاں شفاعت کر سکے، صرف وہی شفاعت کر سکے گا جسے اللہ اجازت دے گا۔ [البقرۃ: 255]

ولیوں کے متعلق جو شخص بھی یہ عقیدہ رکھے کہ وہ کائنات میں مختار کل ہیں، یا انہیں غیب کا علم ہے تو وہ کافر ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:

لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 
ترجمہ: آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ [المائدۃ: 120]

ایک اور مقام پر فرمایا:
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ
ترجمہ: کہہ دے: جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہے کوئی بھی غیب نہیں جانتا، غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ [النمل: 65]

اسی طرح اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسے انداز سے مخاطب کیا کہ جس سے حق بات بالکل واضح ہو جائے اور اس میں کسی قسم کا جھول باقی نہ رہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ترجمہ: کہہ دے: میں اپنے لیے کسی قسم کے نفع یا نقصان کا مالک نہیں ہوں، صرف اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں خیر کثرت کے ساتھ جمع کر لیتا، اور مجھے کوئی تکلیف کبھی نہ پہنچتی۔ یقیناً میں تو ایمان لانے والی قوم کو ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں۔ [الاعراف:188]

اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر۔

دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات

عبد اللہ بن قعود  عبد اللہ غدیان    عبد الرزاق عفیفی      عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز" ختم شد

الشیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
کچھ لوگوں کو اللہ کے ولی کہا جاتا ہے، تو حقیقی معنوں میں اللہ کے ولی کون ہیں؟ انہیں ولایت کا درجہ کیسے ملتا ہے؟ کیا ان کے دنیا میں موجود ہونے کا کوئی مخصوص وقت ہوتا ہے یا اولیاء اللہ ہر وقت موجود ہوتے ہیں؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"اللہ تعالی کے ولیوں کی خوبیاں خود اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ * الَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ ترجمہ: یقیناً اللہ کے ولیوں پر کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے ٭ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور تقوی الہی اپناتے ہیں۔ [یونس: 62 - 63] تو اس آیت کریمہ کی روشنی میں اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جو ایمان والے ہیں اور تقوی اپناتے ہیں، اللہ کے ولیوں کی یہی خوبیاں ہیں۔

اب جو شخص ایمان اور تقوی کی دولت سے مالا مال ہے تو وہ اللہ کے ولیوں میں شامل ہے، تو درجۂ ولایت ہر مسلمان کو اس کے ایمان کے مطابق حاصل ہوتا ہے، جس قدر اس میں ایمان و تقوی ہو گا ولایت بھی اسے اتنی ہی حاصل ہو گی، چنانچہ تمام کے تمام مسلمان اللہ کے ولی ہیں، البتہ سب کا درجہ ولایت ان کے ایمان کے مطابق کم یا زیادہ ہوتا ہے، جس قدر ان کے نیک اعمال ہوں گے ان کا درجہ ولایت اتنا ہی بلند ہو گا، جس قدر ایمان مضبوط ہو گا ان کے نیک اعمال جس قدر کثرت کے ساتھ ہوں گے ، ان میں تقوی الہی پایا جائے گا انہیں اللہ تعالی کی ولایت اتنی ہی زیادہ حاصل ہو گی۔

الحمد للہ ، اللہ کے ولی جب تک اس دھرتی پر مسلمان موجود ہیں اس وقت تک پائے جاتے رہیں گے، لہذا جہاں مسلمان ہیں وہاں اللہ کے ولی بھی ہیں؛ کیونکہ مسلمان ہی اصل میں اللہ کے ولی ہیں، اور اللہ کے اولیاء کی خوبیاں انہی میں پائی جاتی ہیں۔

لیکن اس کا مطلب اور مفہوم وہ نہیں لینا چاہیے جو خرافات میں ملوث افراد لیتے ہیں، کہ اولیاء اللہ کائنات میں ہر قسم کے تصرف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، یا کائنات کے امور چلانے میں وہ اللہ کے شریک ہیں، یا انہیں کچھ اختیارات حاصل ہیں، ان کے بارے میں یہ نظریہ نہیں رکھا جا سکتا کہ وہ دعائیں سن کر قبول کرتے ہیں، یا اولیاء اللہ مرنے کے بعد بھی مشکل کشائی کا مطالبہ کرنے والوں کی مشکل کشائی کرتے ہیں۔ لوگ ان اولیاء کی قبروں پر جا کر اپنی منتیں مانتے ہیں، اور ان سے تبرک لیتے ہیں، قبروں میں مدفون افراد کو اپنی دعاؤں میں پکارتے ہیں حالانکہ وہ تو کب کے فوت ہو چکے ہیں۔ لوگ ان سے اپنی حاجت روائی کا مطالبہ کرتے ہیں، تو یہ سب کام شرک اکبر میں آئیں گے۔ اللہ تعالی کے سچے ولی حقیقت میں ایسی سرگرمیوں کو قطعا پسند نہیں کرتے، بلکہ کوئی بھی مومن انہیں پسند نہیں کر سکتا؛ کیونکہ یہ تو واضح شرک اکبر ہے۔

دوسری طرف ہم اللہ تعالی کے سچے ولیوں سے محبت کرتے ہیں، ان کی اقتدا کرتے ہوئے انہیں اپنا پیشوا مانتے ہیں، ان کے فوت ہو جانے کے بعد ان پر رحمت کی دعا کرتے ہیں اور ان کے لیے اللہ تعالی سے بخشش بھی طلب کرتے ہیں۔

لیکن یہ کہ ہم انہیں اللہ کو چھوڑ کر رب بنا لیں، تو یہ شرک اکبر ہے، اور شرک ایسا گناہ ہے کہ اللہ تعالی توبہ کے بغیر اسے معاف نہیں فرمائے گا۔ " ختم شد
"المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان"

جواب کا خلاصہ:

اپنے ولیوں کے بارے میں ان جاہلوں کا دعوی کہ انہیں مختار کل بنا دیا جاتا ہے، اور یہ ولی نفع و نقصان کے مالک بن جاتے ہیں، وہ کسی بھی چیز کو "کن" کہہ دیں تو وہ چیز ہو جاتی ہے۔۔۔ ایسے دعوے کفر اکبر ہیں، اور اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہیں۔ بلکہ ایسے لوگوں کا شرک ابو جہل جیسے مشرک عربوں سے بھی گھٹیا نوعیت کا ہے۔

اگر یہ لوگ اپنے آپ کو بچانے کے لیے کہیں کہ: انہیں اللہ تعالی نے مختار کل بنایا ہے، تو ان کی یہ بات بھی درست نہیں ہے؛ کیونکہ ان کی یہ بات عرب مشرکوں کے دعوے جیسے ہی ہے جو تلبیہ کہتے ہوئے کہا کرتے تھے:{ ۔۔۔ لبيك لا شريك لك ، إلا شريكا هو لك ، تملكه وما ملك } ترجمہ: تیرا کوئی شریک نہیں، ماسوائے اس شریک کے جس کو تو خود اپنا شریک بنائے۔ تو یہ ایسے ہی ہے جیسے ان کافروں نے کہا ہو کہ: یہ اللہ کے اذن سے اللہ کے شریک ہیں۔!!

ہم پہلے علامہ قرافی رحمہ اللہ کی گفتگو نقل کر چکے ہیں کہ : انہوں نے ایسے شخص کے بارے میں کہا جو اللہ تعالی سے دعا کرے کہ اللہ تعالی اسے اتنی صلاحیت دے دے کہ وہ "کن" کہے تو ہر کام ہوتا چلا جائے۔ کہ یہ کفر ہے؛ کیونکہ اس دعا کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنا شریک بنا لے!

صوفیوں کے اپنے ولیوں کے متعلق غلو کے بارے میں جاننے کے لیے دیکھیں: "تقديس الأشخاص في الفكر الصوفي" از محمد احمد نوح۔ اسی طرح مجلۃ البیان کا شمارہ نمبر: (131) کا مطالعہ کرنا بھی مفید رہے گا۔

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android