جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

عمرہ کرنا چاہتی ہے لیکن اس کا کوئي محرم نہيں

سوال

میں عمرہ پرجانا چاہتی ہوں لیکن میرا کوئي محرم نہيں جس کی وجہ سے میں بہت پریشان اورغمزدہ ہوں ، میرا خاوند ہروقت اپنے کام کاج میں مشغول رہتا ہے اوروہ آٹھ یا دس روز کے لیے کام ترک نہيں کرسکتا ، میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس سلسلہ میں میری کوئي راہنمائی فرمائيں تا کہ میں عمرہ کی ادائيگي کرسکوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

جس عورت کا کوئي محرم نہ ہوجواس کےساتھ سفر کرسکے اس پرحج اورعمرہ واجب نہیں بلکہ وہ اس کے ترک کرنے میں معذورہے ، اوراس کے لیے حج یا کسی دوسرے سفر کے لیے بغیر محرم سفرکرنا حرام ہے ، اس عورت کوصبرکرنا چاہیے حتی کہ اللہ تعالی اس کےلیے کوئي ایسا محرم میسرکردے جواس کےساتھ سفر کرسکے ۔

اورپھرخیروبھلائي کے بہت سےراستے ہیں ، لھذا اگرکوئي مسلمان کوئي ایک عبادت نہيں کرسکتا تواسے ایسی عبادت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جواس کی استطاعت میں ہو حتی کہ اللہ تعالی اس کے لیے وہ عبادت بھی آسان کردے جس کی اس میں استطاعت وطاقت نہيں ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی کا اپنے بندوں پریہ فضل وکرم اوراحسان ہے کہ جب کوئي بندہ اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے کا عزم کرتا ہے لیکن وہ کسی عذر کی بنا پراس پرعمل پیرا نہیں ہوسکا تواسے اس نیکی کے کرنے کا اجروثواب حاصل ہوجاتاہے ، اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس تشریف لارہے تھے اورجب وہ مدینہ شریف کے قریب پہنچے توفرمانے لگے :

( یقینا مدینہ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہيں جس وادی اورجگہ بھی تم گئے ہو وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں ، صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ مدینہ میں رہتے ہوئے ہی ؟ تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اورمدینہ میں ھی ہيں لیکن انہيں عذر نے روک رکھا تھا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4423 ) ۔

مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) سعودی عرب کے علماء کرام کا کہنا ہے کہ :

جس عورت کا محرم نہ ہواس پرحج واجب نہیں کیونکہ اس عورت کے لیے محرم کا ہونا سبیل یعنی راہ میں شامل ہے ، اوروجوب حج کے لیے سبیل ( مکہ تک پہنچنے ) کی استطاعت شرط ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورلوگوں پراللہ تعالی کےلیے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے جوبھی وہاں تک جانے کی استطاعت رکھے ۔

لھذا عورت کےلیے خاوند یا محرم کےبغیر حج یا کو‏‏‏‏‏ئي اورسفرکرنا جائز نہیں ، کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے :

امام بخاری اورمسلم رحمہم اللہ بیان کرتے ہيں کہ : ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :

( کوئي شخص بھی کسی عورت سے محرم کے بغیر خلوت نہ کرے ، اورمحرم کے بغیر کوئي عورت بھی سفر نہ کرے ، توایک شخص کھڑا ہوکرکہنے لگا اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میری بیوی حج کے لیے جارہی ہے اورمیں نے فلاں غزوہ میں اپنانام لکھوا رکھا ہے

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ جاکرحج کرو ) ۔

امام حسن ، امام نخعی ، امام احمد ، اسحاق ، ابن منذر ، اوراصحاب الرائے کا بھی یہی قول ہے ، اورمندرجہ بالا آیت اورعورت کوبغیر محرم اورخاوند سےسفر کی نہی والی احادیث کے عموم کی بنا پرصحیح قول بھی یہی ہے ۔

اورامام شافعی ، امام مالک ، اوزاعی رحمہم اللہ نے اس میں اختلاف کیا ہے اورہر ایک نے ایک شرط رکھی ہے لیکن اس کے پاس اس کی کوئي دلیل نہیں ، ابن منذر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں : انہوں نے حدیث کے ظاہر کوترک کردیا ہے اورہرایک نے ایک لگائي ہے جس کی اس کے پاس کوئي دلیل نہیں ۔

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11/90 -91 ) ۔

اوران کا یہ بھی کہنا ہے :

اگرتوواقعی ایسا ہی ہے جیسا کہ ذکرکیا گيا ہے – کہ آپ کا خاوند یا محرم فریضہ حج کی ادائيگي کےلیے آپ کے ساتھ نہيں جاسکتا – توجب تک آپ کی یہ حالت رہتی ہے اس وقت تک آپ پرحج واجب نہیں ہوتا ، کیونکہ سفر میں خاوند یا محرم کی صحبت آپ پرحج واجب ہونے کےلیے شرط ہے ۔

آپ کے لیے حج یا کوئي دوسرا سفر بغیرمحرم کے کرنا حرام ہے اگرچہ اپنی بھابھی اورعورتوں کے گروپ کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو علماء کاصحیح قول یہی ہے کہ ایسا کرنا حرام ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( محرم کے بغیر کوئي عورت سفر نہ کرے ) متفق علیہ ۔

لیکن اگرآپ کا بھائي اپنی بیوی کے ساتھ ہوتواس حالت میں آپ کےلیے اس کے ساتھ سفرکرنا جائز ہے کیونکہ وہ آپکا محرم ہے ، اورآپ کوچاہیے کہ آپ ایسے اعمال صالحہ کرنے کی کوشش کریں جوسفر کے محتاج نہیں ، اوراللہ تعالی سے امید رکھ کرصبر کریں کہ اللہ تعالی آپ کے لیے اس معاملہ کوآسان فرمادے اورآپ کےلیے محرم یا خاوند کےساتھ حج کرنا آسان فرمائے ۔

دیکھيں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11 / 96 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب