ایک شخص ہر معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی واجب نہیں سمجھتا

سوال: 235537

آپ کی اس شخص کے بار ے میں کیا رائے ہے جو کہتا ہے کہ ہر کام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرنا ہم پر لازم نہیں ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی بشر تھے ، آپ اجتہاد کرتے تھے، اور آپ سے کوتاہی اور درستگی دونوں کا احتمال ہے۔

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت واجب ہے، بلکہ ایمان کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے، جیسے کہ قرآن کریم میں اس کی وضاحت موجود ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالی کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کی اطاعت کرو، اور اپنے حکمرانوں کی بھی۔ چنانچہ اگر تمہارا کسی چیز کے متعلق تنازعہ ہو تو اللہ تعالی اور رسول اللہ کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔ [النساء: 59]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
ترجمہ: اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ و سلم )کی اطاعت کرو، اور متنبہ رہو۔ چنانچہ اگر تم روگرداں ہو گئے تو جان لو یقیناً ہمارے رسول کی ذمہ داری صرف واضح انداز سے تبلیغ کرنا ہے۔ [المائدہ: 92]

ایسے ہی اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ
ترجمہ: اور ہم نے ہر رسول اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ [النساء: 65]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر: (2 / 349) میں کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی ہے: فَلا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ترجمہ: قسم ہے تیرے رب کی وہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں فیصل تسلیم نہ کر لیں۔ [النساء: 65] تو یہاں اللہ تعالی نے اپنی ذات مقدس کی قسم خود اٹھائی ہے کہ: کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے تمام امور میں حاکم اور فیصلہ ساز نہ مان لے، لہذا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے فیصلہ ہو جائے تو پھر ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے اسے تسلیم کرنا واجب ہے، اسی لیے اسی آیت کے اگلے حصے میں فرمایا: ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ترجمہ: پھر وہ اپنے دلوں میں آپ کے فیصلے کے خلاف کوئی تنگی بھی نہ پائیں اور آپ کا فیصلہ مکمل طور پر تسلیم کر لیں۔ [النساء: 65] یعنی: جب وہ آپ کو اپنے لیے ثالثی مان لیں اور اپنے دل سے آپ کی بات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں تو پھر اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے فیصلے پر ان کے دلوں میں کسی قسم کی کڑھن نہیں ہونی چاہیے، بلکہ وہ ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے اس فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیں، اور کسی بھی رکاوٹ، ہچکچاہٹ اور اختلاف کے بغیر اس پر کلی طور پر عمل کریں، جیسے کہ حدیث مبارکہ میں بھی آتا ہے کہ: (قسم ہے اس ذات کے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات بھی میری لائی ہوئی وحی کے مطابق نہ ہو جائیں۔)" ختم شد

امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی نہایت مفید کتاب "ریاض الصالحین" میں باب قائم کیا ہے: "باب ہے سنت کی پابندی اور سنت کا احترام کرنے کے بیان میں۔"

آپ رحمہ اللہ نے متعدد قرآنی آیات اس موضوع پر جمع کی ہیں جن میں اس عظیم ایمانی بنیاد کے متعلق واضح ترین انداز میں رہنمائی موجود ہے کہ ان آیات کے بعد کسی قسم کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہ جاتا، آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
ترجمہ: اور رسول تمہیں جو کچھ بھی دے؛ تم اسے لے لو، اور جس سے تمہیں روکے اس سے رک جاؤ۔[الحشر : 7]

فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى
ترجمہ: اور نبی اپنی مرضی سے نہیں بولتا، وہ تو صرف اس کی طرف کی گئی وحی ہوتی ہے ۔[النجم :3-4]

فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ
ترجمہ: کہہ دے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا، اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ [آل عمران : 31]

فرمانِ باری تعالی ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ وَالْيَوْمَ الآخِر
ترجمہ: یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات بہترین عملی نمونہ ہے، اس شخص کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے۔ [الأحزاب :21]

فرمانِ باری تعالی ہے:
فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً
ترجمہ: قسم ہے تیرے رب کی وہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں فیصل تسلیم نہ کر لیں۔ پھر وہ اپنے دلوں میں آپ کے فیصلے کے خلاف کوئی تنگی بھی نہ پائیں اور آپ کا فیصلہ مکمل طور پر تسلیم کر لیں۔ [النساء : 65]

فرمانِ باری تعالی ہے:
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ
ترجمہ: اگر تم کسی معاملے میں تنازعہ کرو تو اللہ اور رسول اللہ سے رجوع کرو۔ [النساء : 59]، علمائے کرام کہتے ہیں کہ: اس سے مراد کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف رجوع ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ الله
ترجمہ: جو بھی رسول کی اطاعت کرتا ہے اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ [ النساء:80]

فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ صِراطِ اللهِ
ترجمہ: بیشک آپ سیدھے راستے کی جانب رہنمائی کرتے ہیں جو کہ اللہ کا راستہ ہے۔ [الشورى: 52-53]

فرمانِ باری تعالی ہے:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ترجمہ: جو رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں انہیں فتنہ اپنے گھیرے میں نہ لے لے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچ جائے۔[النور :63]

فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللهِ وَالْحِكْمَةِ
ترجمہ: تمہارے گھروں میں جو بھی اللہ کی آیات اور احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کریں۔[الأحزاب :34]

اس حوالے سے آیات اور بھی بہت زیادہ ہیں۔" ختم شد

پھر امام نووی رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے وجوب کے سلسلے میں متعدد احادیث بھی ذکر فرمائیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میری ساری کی ساری امت جنت میں داخل ہو گی، ما سوائے اس شخص کے جس نے جنت میں جانے سے انکار کر دیا۔) کہا گیا: اللہ کے رسول ! جنت میں جانے سے کون انکار کرتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گیا، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔) اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت واجب نہیں ہے اس کے بارے میں تعجب ختم ہی نہیں ہوتا؛ کیونکہ ادھر تو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع پر ہدایت اور فلاح مرتب فرمائی ہے، اور یہ شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت ہی واجب نہیں سمجھتا، چنانچہ اس سلسلے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
ترجمہ: تم اللہ پر اور اس نبی پر ایمان لے آؤ جو امی ہے، جو کہ اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے، اور اسی کی اتباع کرو تا کہ تم ہدایت پاؤ۔ [الاعراف: 158]

اسی طرح فرمایا:

وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
ترجمہ: اور اگر تم اسی کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے، اور رسول کی ذمہ داری واضح انداز سے تبلیغ کے سوا کچھ نہیں ہے۔[النور: 54]

ہر مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت یعنی طریقہ کار کے بارے میں یہ نظریہ رکھے کہ یہ غلطی سے مبرا ہے۔

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی بھی اجتہاد میں اگر کوئی کمی رہ جاتی تھی تو فوری طور پر وحی نازل ہو جاتی تھی، تا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل میں کوئی کمی نہ رہے، اور در پیش مسئلے میں اللہ تعالی کی مراد اور اللہ کا حکم واضح ہو جائے، یہ چیز بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں قرآن کریم میں ثابت ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ . لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ . فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: نبی کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ اس کے پاس جنگی قیدی آتے تاآنکہ میدان جنگ میں کافروں کو اچھی طرح قتل نہ کر دیا جاتا۔ تم دنیا کا مال چاہتے ہو جبکہ اللہ (تمہارے لیے) آخرت چاہتا ہے۔ اور اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے ۔ [67] اگر ایسا ہونا پہلے سے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم نے (فدیہ) لیا ہے اس کی پاداش میں تمہیں بہت بڑی سزا دی جاتی ۔ [68] جو کچھ تم نے بطور غنیمت حاصل کیا ہے اسے تم کھا سکتے ہو۔ یہ حلال اور پاکیزہ ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ یقیناً معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ [الانفال: 67 - 69]

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ . وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ
ترجمہ: نبی اور ایمان والوں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں حالانکہ ان پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہ مشرکین دوزخی ہیں ۔ [113] اور ابراہیم نے اپنے باپ کے لئے بخشش کی جو دعا کی تھی وہ صرف اس لیے تھی کہ انہوں نے اپنے باپ سے اس بات کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ پھر جب ان پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گئے۔ بلاشبہ ابراہیم بڑے نرم دل اور بردبار (انسان) تھے۔ [التوبہ: 113- 114]

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ . قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
ترجمہ: اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ [1] اللہ نے تم لوگوں کے لیے تمہاری قسموں کو ختم کرنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے اللہ تمہارا مولیٰ ہے، اور وہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے ۔[التحریم: 1 - 2]

حاصل کلام:

سوال میں مذکور شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع سے متعلق کچھ نہیں پتا، نہ ہی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کا دین میں مقام معلوم ہے، نہ ہی اسے اس مسئلے کے دلائل کا فہم ہے۔ اس شخص نے اعتراض کرتے ہوئے کسی بھی ایسی چیز کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جو اس کے حق میں ہو، یا اس کی گفتگو سے تعلق رکھتی ہو۔

کتنا ہی اچھا ہوتا کہ یہ شخص شکوک و شبہات پیدا ہونے پر علمائے کرام اور فقہائے عظام سے رجوع کرتا تا کہ وہ اس کے اشکال کا جواب دیتے۔

اللہ تعالی ہم سب کو وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس میں رشد و ہدایت ہو۔

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android