جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

چینی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کو روزے رکھنے سے منع کیا جا رہا ہے، مسلمان کیا کریں؟

232009

تاریخ اشاعت : 29-06-2015

مشاہدات : 3649

سوال

سوال: چین کے علاقے سنکیانگ میں مسلمانوں کو ایک حکومتی آرڈر کے تحت روزے رکھنے سے منع کر دیا گیا ہے، تو کیا زبردستی کھانے پینے پر ان کا روزہ باقی رہے گا؟ کیونکہ انہیں جبراً کھانے پینے پر مجبور کیا گیا ہے، یہ بات ذہن نشین رہے کہ مسلمانوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے، اور انہیں کھانے پینے پر مجبور کیا جاتا ہے، اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو اپنی ملازمت سے ہاتھ بھی دھونے پڑ سکتے ہیں، اور بسا اوقات جیل کا منہ بھی دیکھنا پڑ سکتا ہے، جن لوگوں کی خصوصی نگرانی کی جا رہی ہے ان میں طلباء، سرکاری ملازمین، اور اساتذہ وغیرہ ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اس علاقے کے مسلمانوں  کی مشکلات رفع فرمائے، نیز ان کے اور انکے دشمنوں کے درمیان حق   کیساتھ فیصلہ فرمائے ، وہی کشادگی پیدا کرنے والا جاننے والا ہے۔

ان مسلمانوں کیلئے نصیحت ہے کہ صبر  کریں اور دین پر قائم رہیں، کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو آزماتا ہے، اور یہ اللہ تعالی کا منشور ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لا يُفْتَنُونَ[2] وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ)
ترجمہ: کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اظہار ایمان کے بعد انہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا، اور نہیں آزمائش میں نہیں ڈالا جائے گا؟[2] یقیناً ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا، تا کہ اللہ تعالی سچے لوگوں کو جان لے، اور اسے جھوٹے لوگوں کا بھی علم ہو جائے۔(العنكبوت:2-3)

دوم:

یہ اللہ تعالی کا اپنے بندوں پر فضل ہے کہ جس شخص سے جبراً کوئی کام کروایا جائے تو جبری کام کا مؤاخذہ نہیں ہوگا، چنانچہ جبراً کسی کام کا ارتکاب کرنا یا نہ کرنا دونوں یکساں ہیں، اور اسی جبر میں یہ بات بھی شامل ہے کہ روزے دار کو کھانے پینے  پر ایسی دھمکی سے مجبور کیا جائے  جس سے اس کی جان کو یا اہل عیال کی جان کو خطرات لاحق ہوں تو ایسے روزے دار کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی پر جبر کیا گیا تو اس کا روزہ درست ہے، اس پر قضا بھی نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے جبراً کفر کرنے والے پر بھی كفر كا حکم نہیں لگایا، بشرطیکہ اسكا دل ایمان پر قائم ہو، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
ترجمہ: جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، اِلا یہ کہ وہ مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو یہ معاف ہے) مگر جس نے برضا و رغبت کفر قبول کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے [النحل : 106]
چنانچہ اگر اللہ تعالی نے جبر کی صورت میں کفر کا حکم بھی کالعدم قرار دے دیا ہے تو اس سے کم تر امور تو بالاولی  کالعدم ہونگے،  اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ: (بیشک اللہ تعالی نے میری امت کی خطا ، بھول چوک، اور جبری گناہ معاف کر دیے ہیں) انتہی
"مجالس شهر رمضان" (ص: 82)

میں نے چینی علاقے سے متعلق یہ سوال  اپنے شیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا:
"ان کی نگرانی کرنے والوں کی عدم موجودگی میں کھانے  پینے سے باز رہیں، اور جب  نگران موجود ہوں تو  تھوڑا بہت کھا لیں جس سے انہیں سزا کا سامنا نہ کرنا پڑے، ان کا روزہ درست ہوگا، انہیں قضا دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
ترجمہ: جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، اِلا یہ کہ وہ مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو یہ معاف ہے) مگر جس نے برضا و رغبت کفر قبول کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے [النحل : 106]
اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:
( فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ )
ترجمہ: قدر استطاعت اللہ تعالی سے ڈرو [التغابن :16]" انتہی

واللہ اعلم.

ماخذ: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 404 - 411 )