صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ وضو میں کانوں کے مسح کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں کانوں کا مسح ایک ساتھ کیا جائے۔
جیسے کہ سنن ابو داود (حدیث: 135) میں ہے کہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! طہارت (وضو) کس طرح کی جاتی ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی منگوایا،
پھر تین مرتبہ اپنے ہاتھ دھوئے، پھر تین بار چہرہ دھویا، پھر تین مرتبہ دونوں بازو دھوئے، پھر سر کا مسح کیا، پھر اپنی دونوں شہادت کی انگلیاں کانوں کے سوراخوں میں داخل کیں، اور انگوٹھوں سے کانوں کی بیرونی سطح اور شہادت کی انگلیوں سے اندرونی سطح کا مسح کیا، پھر تین بار پاؤں دھوئے، پھر فرمایا: ’’یہ ہے وضو کا طریقہ، جس نے اس سے زیادہ یا کم کیا، اس نے غلطی کی، زیادتی کی یا ظلم کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام البانی رحمہ اللہ نے ’’صحیح سنن ابو داود‘‘ میں صحیح قرار دیا ہے۔
لہٰذا، وضو میں دایاں عضو پہلے دھونا صرف ہاتھوں اور پاؤں کے لیے خاص ہے، رہا کانوں کا مسح تو اس میں سنت یہ ہے کہ دونوں کا بیک وقت مسح کیا جائے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے فقہا نے کہا ہے کہ دونوں کانوں کا مسح بیک وقت کیا جائے، دایاں کان مقدم کرنا مسنون نہیں، لیکن اگر کسی کا ایک ہاتھ کٹا ہوا ہو تو پھر پہلے دائیں کان کا مسح کرے گا۔ البتہ رویانی نے ایک شاذ (نادر اور ضعیف) قول نقل کیا ہے کہ دائیں کان کو پہلے مسح کرنا مستحب ہے، لیکن یہ قول غلط ہے۔‘‘ ختم شد
المجموع: (1/444)
اسی مفہوم کی بات’’ فتاوی ہندیہ ‘‘ المعروف ’’فتاوی عالمگیری‘‘ (1/9) میں بھی آئی ہے۔
لہٰذا اگر کوئی وضو کرنے والا ایک کان کو دوسرے سے پہلے مسح کرے، خواہ وہ دایاں ہو یا بایاں، تو اس نے سنت اور افضل طریقہ کی مخالفت کی، مگر اس کا وضو درست ہے۔
علامہ بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’جس طرح بھی کانوں کا مسح کیا جائے کافی ہو گا، بالکل ایسے ہی جیسے کہ سر کے مسح میں ہوتا ہے، البتہ سنت یہ ہے کہ وضو کرنے والا اپنی شہادت کی انگلیاں کانوں کے سوراخوں میں داخل کرے اور انگوٹھوں سے کانوں کے بیرونی حصے کا مسح کرے۔‘‘ ختم شد
کشاف القناع: (1/101)
اور پہلے سوال نمبر (115246) میں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ : اگر کوئی شخص وضو میں کانوں کا مسح ترک کر دے تب بھی اس کا وضو صحیح ہوتا ہے، تو جو شخص کانوں کا مسح کر رہا ہو، مگر مسح کرنے کے مسنون طریقے میں کمی یا ترتیب میں خطا کرے، تو اس کا وضو بدرجۂ اولیٰ صحیح ہو گا۔
واللہ اعلم