مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ کسی بھی کافر کو مسجد الحرام یا اس کے آس پاس حرم کے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا ترجمہ: اے ایمان والو! بے شک مشرکین ناپاک ہیں، پس وہ اس سال کے بعد مسجد الحرام کے قریب نہ آئیں۔ [التوبہ: 28]
اور جہاں تک دیگر مساجد کا تعلق ہے، تو بعض فقہاء کے نزدیک غیر مسلم کا داخلہ جائز ہے، کیونکہ اس کے منع ہونے پر کوئی صریح دلیل نہیں ملتی، جبکہ بعض دیگر فقہاء نے مسجد الحرام پر قیاس کرتے ہوئے اسے ناجائز قرار دیا ہے۔
درست اور راجح رائے یہ ہے کہ کسی شرعی مصلحت یا ضرورت کی بنا پر غیر مسلموں کو مساجد میں داخل ہونے کی اجازت دی جا سکتی ہے، جیسے:
- وہ اسلام کے بارے میں سننے کے خواہشمند ہوں، تاکہ ان کے دل میں قبولِ اسلام کی رغبت پیدا ہو۔
- وہ پانی پینے یا کسی اور جائز ضرورت کے لیے مسجد میں آنا چاہیں۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ثمامہ بن اثال حنفی کو اسلام قبول کرنے سے پہلے مسجد میں باندھ کر رکھا تھا، اور وفدِ ثقِیف اور نجران کے عیسائی وفد کو بھی مسجد میں ٹھہرنے کی اجازت دی تھی، حالانکہ وہ ابھی ایمان نہیں لائے تھے۔ اس سے کئی فائدے حاصل ہوئے، جیسے:
- انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خطبات اور نصیحتیں سنیں۔
- انہوں نے مسلمانوں کو نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے دیکھا اور سنا۔
- اور مسجد میں رہنے کے دیگر دینی اور روحانی فوائد حاصل کیے۔
ماخوذ از: فتاویٰ اللجنة الدائمة: (6/276)
لہٰذا، اگر کچھ غیر مسلم مسجد میں داخل ہونا چاہیں تاکہ وہ مسلمانوں کی عبادت دیکھ سکیں، اور ان کی حالت ایسی نہ ہو کہ وہ مسجد کو ناپاک کریں، یا وہ بے پردہ عورتیں نہ ہوں، اور کوئی اور شرعی ممانعت بھی نہ ہو، تو انہیں مسجد میں داخل ہونے دیا جا سکتا ہے۔ وہ مسلمانوں کے پیچھے بیٹھ کر مسلمانوں کو نماز ادا کرتے دیکھ سکتے ہیں، اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان کے بارے میں محتاط رہیں تاکہ کوئی نادانی میں انہیں سخت رویہ اختیار کرکے دھتکار نہ دے۔
واللہ اعلم۔