اول:
تمام انبیائے کرام میں سے ہر ایک نبی کو اللہ تعالی نے معجزہ عطا فرمایا تھا جو متعلقہ نبی کی صداقت کی دلیل ہوتا تھا، اور نبی اس معجزے کے ذریعے اپنے مخالفین پر حجت قائم کرتا تھا۔
چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ ( انہیں دیکھ کر ) لوگ ان پر ایمان لائیں۔ جبکہ مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی ( قرآن ) ہے جو اللہ تعالی نے مجھ پر نازل کی ہے ، تو مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیروکار دوسرے پیغمبروں کے پیروکاروں سے زیادہ ہوں گے ۔) اس حدیث کو امام بخاری: (4981) اور مسلم : (152) نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث مبارکہ کے الفاظ: " ہر نبی کو معجزات عطا کئے گئے " کا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحب نبوت کو معجزے دئیے گئے ہیں جن کی بدولت معجزے کا مشاہدہ کرنے والے لوگ نبی صداقت کے قائل ہو جاتے تھے، لیکن اگر کوئی قائل نہ بھی ہو تو اس سے نبی کی صداقت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کو ایک یا ایک سے زائد نشانیاں دی جاتی ہیں، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی انسان ان کا مشاہدہ کر کے نبی پر ایمان لے آئے، یہاں نشانیوں سے مراد معجزے ہیں، تو ہر نبی کو خصوصی معجزہ دیا جاتا ہے جو کسی اور نبی کو نہیں دیا گیا ہوتا، اس معجزے کے ذریعے نبی اپنی امت کو چیلنج بھی کرتا ہے، اور ہر نبی کو اس وقت کے موجودہ حالات کی مناسبت سے معجزہ دیا جاتا ہے۔" ختم شد
فتح الباری از ابن حجر: (9/ 6)
دوم:
یہ ضروری نہیں ہے کہ قرآن کریم میں یا حدیث مبارکہ میں ہر نبی کے معجزے کا الگ الگ نام لے کر تذکرہ کیا جائے؛ کیونکہ یہ معجزے ہماری طرف نہیں بھیجے گئے، اور اگر ہمیں ان کا علم ہو بھی جائے تو اس پر کوئی عملی پہلو ہمارے سامنے نہیں آتا، اور ہم پر یہ بھی لازم نہیں ہے کہ ہم سابقہ انبیائے کرام پر ان کے معجزوں کی وجہ سے ایمان لائیں، کیونکہ ان کے معجزے ان کے ساتھ ہی گزر چکے ہیں، اور ان کا وقت بھی گزر چکا ہے، چنانچہ ہم سابقہ انبیائے کرام پر ایمان اس لیے لاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنی کتاب میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سنت مبارکہ میں ان کے متعلق خبر دی ہے۔
یہاں ہم سے تعلق رکھنے والی بات یہ ہے کہ ہم یہ جانیں کہ اللہ کے نبی نوح اور ھود اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام اللہ کے سچے نبی تھے، اللہ تعالی نے انہیں اپنی اپنی اقوام کی جانب مبعوث فرمایا، نیز انہیں اللہ تعالی کی طرف سے اتنی مقدار میں دلائل اور نشانیاں دی گئیں جن کی وجہ سے ان کی تصدیق کرنا اور ان پر ایمان لانا لازم ہو جاتا تھا، یہ الگ بات ہے کہ انہیں عطا کی گئی نشانیاں اور معجزے کبھی معلوم ہو جاتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم چند انبیائے کرام کے نام اور ان کے حالات وحی کی روشنی میں جانتے ہیں اور جن کے بارے میں ہمیں وحی نے نہیں بتلایا ان کے ناموں اور حالات سے ہم نا واقف ہیں۔
علامہ زجاج رحمہ اللہ سیدنا شعیب علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ یعنی: تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی آ گئی ہے لہذا تم ماپ اور تول پورا کرو۔
کچھ نحوی حضرات کہتے ہیں کہ سیدنا شعیب علیہ السلام کو نبوت کے علاوہ کوئی نشانی نہیں دی گئی تھی۔ ان کی یہ بات بالکل غلط ہے۔
کیونکہ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں قَدْ جَاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ کے فوری بعد "ف" جزائیہ کے ساتھ جواب دیا اور کہا فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شعیب علیہ السلام انہیں یہ کہیں کہ: تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی آ گئی ہے۔ لیکن ان کے پاس نبوت کے علاوہ کوئی نشانی ہی نہ ہو! اگر سیدنا شعیب علیہ السلام کے پاس نبوت کے علاوہ نشانی آئی ہے تو انہوں نے اپنی قوم کے سامنے اسے پیش بھی کیا ہے۔
ایسے قائلین کی بات بالکل غلط ہے جو کہتے ہیں کہ: سیدنا شعیب علیہ السلام کو کوئی معجزہ نہیں دیا گیا تھا! کیونکہ اگر کوئی بھی نبوت کا مدعی معجزے اور نشانی کے بغیر نبوت کا دعوی کرے تو اس کا دعوی قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیدنا شعیب علیہ السلام کو اللہ تعالی نے معجزہ عطا کیا تھا ، جسے اللہ تعالی نے اس آیت میں "بینہ" قرار دیا ہے، لیکن اس کی وضاحت نہیں فرمائی۔ بالکل ایسے ہی کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بہت سے انبیائے کرام کی نبوت کا ذکر کیا ہے لیکن انہیں معجزہ کون سا دیا گیا تھا اس کی تفصیل بیان نہیں کی۔ تو اگر کسی نبی کو دئیے گئے معجزے کی تفصیل قرآن کریم میں ذکر نہیں ہوئی اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ انہیں کوئی نشانی اور معجزہ دیا ہی نہیں گیا۔ " ختم شد
معانی القرآن: (2/ 353-354)
اس حوالے سے مزید کے لیے دیکھیں: "تفسیر ابن عطیہ"(2/ 426)
سوم:
سیدنا نوح علیہ السلام کا معجزہ خشکی پر کشتی تیار کر کے اسے پہاڑوں جیسی پانی کی لہروں پر چلانا تھا، آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس طوفان سے ڈرایا بھی تھا۔
ابن کثیر رحمہ اللہ ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ کی کرامت ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"یہ کرامت نوح علیہ السلام کے معجزے جیسی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی کے حکم سے کشتی بنائی اور انہوں نے پانی پر اسی کشتی کے ذریعے سفر کیا۔" ختم شد
"البداية والنهاية " (9/ 317)
یہاں کوئی کہنے والا سائل کی طرح نہیں کہہ سکتا کہ طوفان نوح ان کی تکذیب کے بعد آیا تھا، جبکہ معجزہ نبی کے ساتھ ہوتا ہے تا کہ لوگ نبی کی تصدیق کر سکیں؛ اس اعتراض کے جواب میں کہا جائے گا کہ سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس طوفان سے خبردار بھی کیا تھا اور ڈرایا بھی تھا، بلکہ اس کی دھمکی بھی دی تھی۔ چنانچہ جب قومِ نوح پر عذاب کے آثار شروع ہوئے تو وہ پھر بھی اپنے کفر پر ڈٹے رہے، تکبر میں ڈوبے رہے لیکن ایمان نہیں لائے، اگر وہ اس وقت بھی ایمان لے آتے تھے ان کا ایمان قبول ہو جاتا، آپ سیدنا نوح علیہ السلام کی اپنے بیٹے کے ساتھ گفتگو پر غور و فکر کریں کہ کس طرح انہوں نے لجاجت کے ساتھ کہا: يَا بُنَيَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلَا تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِينَ ترجمہ: اے میرے بیٹے! میرے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں میں شامل نہ ہو۔ [ھود: 42] اگر نوح علیہ السلام کا بیٹا ان کے ساتھ کشتی پر سوار ہو جاتا تو وہ مومنوں میں شامل ہو جاتا اور کافروں میں نہ رہتا، یہی حکم دوسرے لوگوں کا بھی تھا، تو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معجزہ اپنے وقت پر رونما ہوا تھا، لیٹ نہیں تھا۔
پھر سیدنا نوح علیہ السلام کو دیا گیا سب سے بڑا معجزہ اور نشانی آپ علیہ السلام کی انہیں واضح دعوت اور دلائل کی روشنی میں گفتگو تھی، جیسے کہ اللہ تعالی نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَارِهُونَ * وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ * وَيَا قَوْمِ مَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ طَرَدْتُهُمْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ * وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَنْ يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنْفُسِهِمْ إِنِّي إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ * قَالُوا يَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
ترجمہ: نوح نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اگر میں اپنے رب کی جانب سے ایک صاف اور روشن راہ پر قائم ہوں، اور اس نے مجھے اپنے جناب خاص سے نبوت جیسی رحمت عطا کی ہے، لیکن وہ راہ تم سے چھپا دی گئی، تو کیا میں تمہارے نہ چاہنے کے باوجود، تمہیں اس کا پابند بنا سکتا ہوں۔ [28] اور اے میری قوم کے لوگو ! میں تم سے دعوت و تبلیغ کے عوض مال و دولت نہیں مانگتا ہوں، میرا اجر و ثواب تو صرف اللہ دے گا، اور میں ایمان والوں کو اپنے پاس سے نہیں بھگا سکتا ہوں، اس لیے کہ وہ یقیناً اپنے رب سے ملیں گے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ نہایت ہی نادان ہو۔ [29] اور اے میری قوم کے لوگو ! اگر میں نے انہیں (اپنی مجلسوں سے) بھگا دیا تو اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے کون میری مدد کرے گا، کیا تم لوگ غور و فکر نہیں کرتے ہو۔ [30] اور میں تم سے نہیں کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ جنہیں تمہاری نظریں حقیر جانتی ہیں، انہیں اللہ کوئی خیر عطا نہیں کرے گا، ان کے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ خوب جانتا ہے، اگر میں ایسا کہوں گا تو یقیناً ظالموں میں سے ہو جاؤں گا۔ [31] ان کی قوم کے لوگوں نے کہا، اے نوح ! تم ہم سے مناظرے کرتے رہے ہو، اور بہت زیادہ مناظرے کرتے رہے ہو، تو اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کا ہم سے وعدہ کرتے رہے ہو، اب اسے لے ہی آؤ۔ [ھود: 28 - 32]
سیدنا نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ مباحثہ اور مناظرہ قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر ذکر ہوا ہے۔
اور اس سب کے باوجود ممکن ہے کہ سیدنا نوح علیہ السلام کو اس کے علاوہ بھی کوئی نشانی دی گئی ہو، لیکن ہمیں اس کی حقیقت اور خبر کا ادراک نہ ہو، جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔
یہی بات ہم سیدنا ھود علیہ السلام اور سیدنا شعیب علیہ السلام کے بارے میں کہیں گے؛ چنانچہ ممکن ہے کہ ان دونوں انبیائے کرام کو معجزے دئیے گئے لیکن ہمیں ان کا علم نہیں ہو سکا اور اللہ تعالی نے ہمیں ان کی تفصیلات نہیں بتلائیں، جیسے کہ علامہ زجاج کی گفتگو میں یہ بات گزر چکی ہے، یا پھر ان کا معجزہ ہی یہی تھا کہ انہوں نے اپنی اپنی اقوام کو ان کے اعتراضات کے مسکت جوابات پوری حکمت اور واضح بیان کے ساتھ پیش کیے تھے، اور ان کے تمام شبہات کو ہوا کر دیا تھا۔
علامہ ابن العز حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حتی کہ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ رسولوں میں سب سے مخفی آیات اور براہین سیدنا ھود علیہ السلام کو دی گئیں ۔ حتی کہ ان کی قوم نے ان کے سامنے یہ کہہ دیا: [اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ]
قَالُوا يَهُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ ترجمہ: اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی واضح دلیل نشانی نہیں لیکر آیا۔ [هود: ۵۳]
لیکن اس کے باوجود میں واضح کر چکا ہوں کہ آپ کی نشانیاں و معجزات اور براہین ہر اس شخص کے لیے انتہائی واضح تھیں جسے اللہ تعالیٰ نے تدبر کی توفیق سے نوازا ہو۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ * مِنْ دُونِهِ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُونِي * إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُمْ مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
ترجمہ: اس نے کہا میں تو اللہ کو گواہ بنا تا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک بناتے ہو اللہ کے سوا۔ سو تم سب میرے خلاف تدبیر کر لو، پھر مجھے مہلت نہ دو۔ بے شک میں نے اللہ پر بھروسا کر لیا ہے وہی میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ کوئی چلنے والا جاندار نہیں مگر وہ اسے اس کی پیشانی سے پکڑے ہوئے ہے۔ بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔ [ھود: 54 - 56]
تو یہ سب سے بڑی نشانیوں میں شامل ہے کہ ایک شخص پوری قوم کے سامنے اکیلا کس طرح بغیر کسی خوف اور گھبراہٹ اور بزدلی کے نڈر ہو کر یہ اعلان کر رہا ہے۔ بلکہ اپنے خطاب اور اعلان پر اس کو کتنا یقین اور اعتماد ہے کہ سب سے پہلے سیدنا ھود علیہ السلام ان کے دین سے ؛ اور جن نظریات پر وہ لوگ تھے ؛ اس سے کھلم کھلا برات کا اظہار کرتے ہوئے اللہ کو گواہ بناتے ہیں کہ ان کا اعتماد اور بھروسہ فقط اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے۔ اور قوم کو یہ خبر دیتے ہیں کہ ان کا حامی و مدد گار وہی اللہ تعالیٰ ہے؛ اور وہ کبھی کافروں کو مجھ پر غلبہ نہیں دے گا۔ اور پھر سیدنا ھود علیہ السلام انہیں اپنی مخالفت پر کھلا گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ وہ ان کے دین اور ان کے خداؤں سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ خدا جن سے تعلق اور دوستی کے قومِ ھود کے لوگ مدعی تھے؛ اور جن کی خاطر وہ سیدنا ھود علیہ السلام سے دشمنی رکھتے تھے؛ اور جن کی نصرت کے لیے وہ جانی اور مالی قربانیوں سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ پھر سیدنا ھود علیہ السلام تاکیدی طور پر ان بتوں کی مزید حقارت اور ذلت بیان کرتے ہیں اور انہیں انتہائی گھٹیا اور معیوب قرار دیتے ہیں۔ نیز کہتے ہیں کہ اگر تمام لوگ میری مخالفت پر جمع ہو جائیں اور اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہیں تو وہ جلدی کریں اور انہیں کچھ بھی مہلت نہ دیں ۔ لیکن یاد رکھیں کہ وہ انہیں صرف اسی قدر نقصان پہنچا سکیں گے جس قدر اللہ تعالیٰ نے ان کے نصیب میں لکھ دیا ہو۔
پھر مزید برآں سیدنا ھود علیہ السلام بار بار انہیں پکار رہے ہیں اور بہترین انداز میں انہیں دعوت دے رہے ہیں کہ ان کا اور ان کی قوم کا رب صرف ایک اللہ تعالیٰ ہے، جس کے قبضے میں ان سب کی پیشانیاں اور جانیں ہیں۔ وہی ان کا حامی و ناصر و محافظ ہے جو ان کی مدد و نصرت اور ان کی دعوت کی تائید کے لیے موجود ہے، اور یہ کہ وہی صراط مستقیم پر گامزن ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس کو کبھی بھی ذلیل نہیں کرتا جو اس پر تو کل کرتا ہے؛ اور اللہ پر ایمان کا اقرار کرتا ہے۔ اور نہ کبھی اس کے مخالفین کو اس پر ہنسنے اور ٹھٹھہ کرنے کا موقع دیتا ہے۔
تو انبیائے کرام علیہم السلام کو دی گئی ؛ نشانیوں ، حجتوں اور دلائل سے زیادہ احسن اور زور دار کوئی اور دلیل کیا ہو سکتی ہے؟ ۔ اور یہ دلائل ہیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جن کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے انتہائی صاف اور واضح انداز میں بیان فرما دیا ہے۔" ختم شد
شرح طحاویہ: صفحہ: 47۔
علامہ قاسمی رحمہ اللہ سیدنا شعیب علیہ السلام کے قول: قَدْ جاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ کے متعلق کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: قَدْ جاءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ کا مطلب ہے کہ تمہارے سامنے حق و باطل بالکل واضح اور عیاں کر دئیے گئے ہیں، حق سے مراد ھود علیہ السلام کی دعوت اور رہنمائی ہے۔ یہاں "بیّنہ" سے مراد کچھ مفسرین نے شعیب علیہ السلام کی بعثت لی ہے؛ کیونکہ ان کے ہاں سیدنا شعیب علیہ السلام کو صرف نبوت ہی دی گئی تھی کوئی معجزہ نہیں دیا گیا تھا۔
جبکہ کچھ مفسرین نے یہاں " بیّنہ " کی تفسیر حجت اور برہان سمیت حسی معجزہ لیا ہے، انہوں نے یہ معنی اس لیے ذکر کیا ہے کہ ہر نبی کو ایسا معجزہ اور نشانی ضرور دی گئی ہے جسے دیکھ کر مشاہدین نبوت کا اقرار کیے بغیر نہ رہ سکیں۔ اس لیے ہر نبی کے پاس ایسا معجزہ ہونا ضروری ہے جس سے اللہ کے نبی کی صداقت واضح ہو، لہذا یہاں " بیّنہ " سے مراد معجزہ ہی ہے۔ نیز ان کا یہ کہنا ہے کہ سیدنا شعیب علیہ السلام کے معجزے کا نام قرآن کریم میں ذکر نہیں کیا گیا، ویسے بھی تمام انبیائے کرام کے تمام معجزوں کو قرآن کریم میں بیان بھی نہیں کیا گیا۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ " بیّنہ " کسی بھی قوم کے عرف کے لحاظ سے معجزے کی بہ نسبت عام ہوتی ہے؛ چنانچہ کوئی بھی ایسی چیز جس سے گمراہی کا شبہ زائل ہو جائے، اور جس حق کی دعوت دی جا رہی ہے اس کی دلیل سمجھ میں آ جائے تو اس کے پاس " بیّنہ " آ گئی ہے۔ کیونکہ " بیّنہ " کی حقیقت یہ ہے کہ وہ حق بیان کر دیتی ہے۔ اسے اچھی طرح یاد کر لیں۔" ختم شد
"تفسیر القاسمی" (5/ 146)
واللہ اعلم