آخرت پر ایمان، اور آخرت پر ایمان لانے کے جزوی اجزا یعنی جنت اور جہنم پر ایمان لانا ایمان کے چھ ارکان میں شامل ہے، اگر کوئی شخص ان چھ ارکان میں سے کسی ایک رکن کا منکر ہو تو وہ شخص اللہ پر ایمان لانے والا نہیں ہے ، وہ کافر اور دائمی جہنمی ہے، اسے قیامت کے دن کسی بھی عمل کا فائدہ نہیں ہو گا، اور نہ ہی قیامت کے دن اس کا کوئی سفارشی ہو گا۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ
ترجمہ: اللہ کا رسول اس پر ایمان لایا جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل کیا گیا اور مومن بھی ایمان لائے۔ سب اللہ تعالی پر، اللہ کے فرشتوں پر، اللہ کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ کہ ہم اللہ کے کسی بھی رسول میں تفریق نہیں کرتے، اور وہ کہتے ہیں: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ پروردگار! تیری بخشش چاہتے ہیں ہمارے رب! اور تیری طرف ہی لوٹنا ہے۔ [البقرۃ: 285]
اللہ تعالی نے اہل ایمان کی خوبیاں ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ترجمہ: اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔[النمل: 3]
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے ساتھ تشریف رکھتے تھے کہ ایک آدمی چلتے ہوئے خدمت میں حاضر ہوا پھر پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ایمان کیا ہے ؟ آنحضرت نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں ، رسولوں اور اس کی ملاقات پر ایمان لاؤ اور قیامت کے دن پر ایمان لاؤ۔ )اس حدیث کو امام بخاری: (4777) اور مسلم : (9) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم : (8) میں سیدنا جبریل علیہ السلام کی مشہور حدیث میں ہے کہ: " اس اجنبی شخص نے کہا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا: (یہ کہ تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور آخری دن (یوم قیامت ) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ ۔ ) تو اس اجنبی شخص نے کہا: آپ نے ٹھیک کہا۔"
چنانچہ قرآن کریم میں آخرت پر ایمان اللہ تعالی پر ایمان لانے کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے، لہذا اگر کوئی شخص آخرت پر ایمان نہیں لاتا تو وہ مومن نہیں ہے۔
اسی لیے فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ ...
ترجمہ: لیکن نیکی اس شخص کی ہے جو اللہ تعالی پر ایمان لایا، آخرت کے دن پر ایمان لایا، فرشتوں، کتاب اور نبیوں پر ایمان لایا۔ [البقرۃ: 177]
ایسے فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَا بِاليَوْمِ الآَخِرِ وَمَنْ يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا
ترجمہ: اور جو لوگ اپنا مال لوگوں کے سامنے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو وہ بدترین ساتھی ہے۔ [النساء: 38]
فرمانِ باری تعالی ہے:
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَا بِاليَوْمِ الآَخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
ترجمہ: ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ شے کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں کتاب دی گئی ہے، [قتال اس وقت تک کرنا ہے کہ] یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں ۔[التوبۃ: 29]
ایک اور مقام پر فرمایا:
قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ
ترجمہ: بیشک خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے ملنے کی تکذیب کی، یہاں تک کہ جب وہ معین وقت ان پر دفعتًا آپہنچے گا، کہیں گے کہ ہائے افسوس ہماری کوتاہی پر جو قیامت کے بارے میں ہوئی، اور حالت ان کی یہ ہو گی کہ وہ اپنے بار اپنی پیٹھوں پر لادے ہوں گے، خوب سن لو کہ بری ہو گی وہ شے جس کو وہ لادیں گے ۔[الانعام: 31]
دوسری جانب اللہ تعالی نے کافروں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
وَهُمْ بِالْآخِرَةِ كَافِرُونَ
ترجمہ: اور وہی کافر ہی آخرت کے منکر ہیں۔[الأعراف: 45]
فرمانِ باری تعالی ہے:
الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ نَنْسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَذَا وَمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ
ترجمہ: جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنایا اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈالے رکھا تو آج ہم انہیں بھول جائیں گے جیسے وہ اس دن کی ملاقات کو بھول چکے تھے، اور وہ ہماری آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔ [الأعراف: 51]
فرمانِ باری تعالی ہے: زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ
ترجمہ: آخرت کا انکار کرنے والوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ قطعاً اٹھائے نہیں جائیں گے۔ آپ ان سے کہہ دیں: کیوں نہیں۔ میرے پروردگار کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر جو کچھ تم کرتے رہے اس سے تمہیں آگاہ کیا جائے گا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے ۔[التغابن:7]
فرمانِ باری تعالی ہے: كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ * إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ * فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ * عَنِ الْمُجْرِمِينَ * مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ * قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ * وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ * وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ * وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ * حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ
ترجمہ: ہر جان اپنی کارکردگی کے عوض گروی ہے۔ سوائے دائیں ہاتھ والوں کے وہ جنتوں میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے ۔ مجرموں کے بارے میں۔ کس چیز نے تمہیں جہنم میں داخل کیا؟ تو وہ کہیں گے: ہم نماز نہیں پڑھا کرتے تھے، اور نہ ہی مساکین کو کھانا کھلاتے تھے۔ اور ہم باتیں بنانے والوں کے ساتھ باتیں بناتے تھے۔ اور ہم بدلے کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے۔ حتی کہ ہمارے پاس یقینی حکم موت آ گئی۔ [المدثر: 38-47]
آخرت پر ایمان لانے کے حوالے سے آیات کی تعداد مذکورہ آیات سے بہت زیادہ ہے۔
صحیح مسلم: (214) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ابن جدعان دورِ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا، کھانا کھلاتا تھا، تو کیا اسے اس کے یہ اعمال فائدہ دیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ اعمال اسے فائدہ نہیں دیں گے؛ کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا: پروردگار! میری غلطیاں بدلے کے دن معاف فرما دینا۔)
علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: ابن جدعان نے جو بھی صلہ رحمی کی، کھانا کھلایا، رفاہِ عامہ کے کام سر انجام دئیے، ان سب سرگرمیوں کا اسے قیامت کے دن کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ یہ شخص کافر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا: پروردگار! میری غلطیاں بدلے کے دن معاف فرما دینا۔) کا یہی مطلب ہے۔ یعنی وہ آخرت کے دن دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان نہیں رکھتا تھا، اور جو شخص دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان نہ رکھے تو وہ کافر ہے، اسے کوئی بھی عمل فائدہ نہیں دے گا۔
علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس بات پر تمام اہل علم کا اجماع ہو چکا ہے کہ کافروں کو ان کے اعمال فائدہ نہیں دیں گے، نہ ہی انہیں اس پر ثواب دیا جائے گا، اور نہ ہی ان اعمال کی وجہ سے ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہو گی۔" ختم شد
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آخرت کے بارے میں شک کرنے والا شخص، اسی طرح جسے جنت کے بارے میں شک ہو کہ ہے بھی سہی یا نہیں؟ یا کسی کو جہنم کے موجود ہونے یا نہ ہونے پر شک ہو، یا کوئی دوبارہ جی اٹھنے کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہو کہ کیا اللہ تعالی دوبارہ مردوں کو زندہ کرے گا؟ تو ایسے شخص کا کوئی ایمان اور یقین نہیں ہے، یہ شخص اس وقت تک کافر ہو گا جب تک دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان نہ لے آئے، جنت اور جہنم پر یقین نہ رکھے کہ اللہ تعالی نے متقین کے لیے جنت تیار کی ہے اور کافروں کے لیے جہنم تیار کی ہوئی ہے۔ لہذا آخرت پر ایمان لائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔" ختم شد
مجموع فتاوی ابن باز : (28/ 231)
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے قرآن کریم اپنے آپ پر ایمان کے ساتھ آخرت کے دن پر ایمان کو ذکر کیا ہے، یعنی اللہ پر ایمان آغاز پر ایمان ہے، اور آخرت پر ایمان انتہا پر ایمان ہے؛ اور ویسے بھی جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتا وہ اللہ تعالی پر قطعی طور پر ایمان نہیں رکھتا۔" ختم شد
مجموع فتاوی و رسائل ابن عثیمین: (8/ 472)
واللہ اعلم
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (12295) ، (12347) اور (13994)کا جواب ملاحظہ کریں۔