4

اجماع کی حجیت پر کتاب و سنت کے دلائل

سوال: 197937

اس بات کی قرآن و سنت میں کیا دلیل ہے کہ علمائے کرام کے اجماع کو اسلامی شریعت میں قانون سازی کے لیے بطور دلیل استعمال کیا جا سکتا ہے؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

صحیح اجماع اسلامی قانون سازی کا ایک ماخذ ہے، چنانچہ جب اجماع ثابت ہو جائے تو یہ ایسی شرعی دلیل ہے جس پر عمل کرنا لازم ہے اور اس کی مخالفت کرنا قطعا جائز نہیں ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (112268) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اور حجیت اجماع پر قرآن و حدیث سے متعدد لائل موجود ہیں، چنانچہ پہلے قرآن کریم سے دلائل درج ذیل ہیں:

  • فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
    ترجمہ: اور جو بھی رسول کی مخالفت کرے بعد ازاں کہ اس کے لیے ہدایت واضح ہو گئی، اور وہ مسلمانوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے پر چلے تو ہم اسے اسی جہت پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھر گیا، اور ہم اسے جہنم واصل کریں گے اور جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔ [النساء: 115]

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام شافعی رحمہ اللہ نے اجماع کی حجیت اور اجماع کی مخالفت کے حرام ہونے کے لیے بہت لمبے چوڑے غور و فکر کے بعد اس آیت کو دلیل بنایا ہے، یہ ان کا بہت ہی بہترین اور مضبوط ترین استنباط ہے۔" ختم شد
"تفسیر ابن کثیر" (2/ 413)

وجہ استدلال: اللہ تعالی نے مسلمانوں کے راستے کو چھوڑ کر کسی اور راستے کو اپنانے والے کو عذاب کی وعید سنائی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے راستے پر چلنا واجب ہے، اور یہ وہی راستہ ہوتا ہے جس پر مسلمانوں کا اجماع ہو۔

  • فرمانِ باری تعالی ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا
    ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تمہیں امتِ وسط بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہو جائے۔ [البقرۃ: 143]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عربی زبان میں "وسط" بہترین اور معتدل کو کہتے ہیں، تو اللہ تعالی نے اس امت کو لوگوں کے لیے گواہ بنایا ہے، پھر ان کی گواہی کو رسول کی گواہی کا قائم مقام بنایا، پھر صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو صحابہ کرام نے اس جنازے کے بارے میں اچھے کلمات کہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو بار فرمایا: (واجب ہو گئی، واجب ہو گئی)، پھر دوسری بار ایک اور جنازہ گزرا تو صحابہ کرام نے اس میت کا برے الفاظ میں تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو بار پھر فرمایا: (واجب ہو گئی، واجب ہو گئی)۔ اس پر صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ آپ نے بار بار (واجب ہو گئی، واجب ہو گئی) کیوں کہا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس جنازے کے بارے میں تم نے اچھے الفاظ میں تعریف کی تو میں نے اس کے لیے کہا تھا کہ: اس کے لیے جنت واجب ہو گئی، اور جس جنازے کے بارے میں تم نے برے الفاظ میں مذمت کی تو میں نے اس کے لیے کہا تھا کہ: اس کے لیے جہنم واجب ہو گئی)

تو جب اللہ تعالی نے انہیں گواہ مقرر کیا ہے تو وہ سب کے سب مل کر کبھی بھی باطل گواہی نہیں دیں گے، لہذا اگر امت کے سب کے سب معتبر لوگ یہ گواہی دیں کہ اللہ تعالی نے یہ کام کرنے کا حکم دیا ہے تو واقعی اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا ہے، اور اگر وہ سب کے سب مل کر گواہی دیں کہ اللہ تعالی نے فلاں کام سے روکا ہے تو واقعی اللہ تعالی نے اس کام سے روکا ہے۔ اگر اس امت کے لوگ باطل گواہی دینے والے یا غلط گواہی دینے والے ہوتے تو کبھی بھی اس دھرتی پر اللہ کے مقرر کردہ گواہ نہ ہوتے، بلکہ اللہ تعالی نے تو اس امت کے لوگوں کی گواہی کی تعریف اسی طرح فرمائی ہے جیسے انبیائے کرام کی گواہی کی فرمائی کہ جس طرح انبیائے کرام اللہ تعالی کی طرف سے تبلیغ کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے بارے میں حق اور سچ کہتے ہیں اس امت کے لوگ بھی اللہ تعالی کے بارے میں حق اور سچ کہتے ہیں، چنانچہ فرمان باری تعالی ہے: وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إلَيَّ ترجمہ: اور تو اس کے راستے پر چل جو میری طرف رجوع کرتا ہے۔ [لقمان: 15] تو اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے والی امت کے راستے پر چلنا واجب ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (19 /177-178)

  • فرمانِ باری تعالی ہے: فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ترجمہ: پس اگر تمہارا کسی چیز کے متعلق تنازعہ ہو تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس کے لیے اللہ اور رسول اللہ سے رجوع کرو۔[النساء: 59]

تو اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے فرمایا: فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ یعنی اگر تمہارا کسی چیز کے بارے میں تنازعہ ہو تو پھر اللہ اور رسول اللہ کی جانب رجوع کرنا ہے، لیکن اگر باہمی تنازعہ ہو ہی نا بلکہ اجماع ہو جائے تو پھر کتاب و سنت کی طرف رجوع ضروری نہیں ہے، اجماع ہی کافی ہے۔

حدیث مبارکہ سے اجماع کی حجیت کے دلائل:

  • سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں فرمائے گا، اور اللہ تعالی کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔) اس حدیث کو ترمذی : (2167)نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے "صحیح ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے۔
  • اسی روایت کو ابن ابی عاصم نے اپنی کتاب "السنہ"(83) میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ: "بیشک نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کہا کرتے تھے: (اللہ تعالی نے میری امت کو اس بات سے بچا لیا ہے کہ یہ کسی گمراہی پر اکٹھی ہو) " اس روایت کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح الجامع" (1786) میں صحیح قرار دیا ہے۔
  • آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی متعدد احادیث مبارکہ میں مسلمانوں کی اجتماعیت کے ساتھ رہنے کی تلقین فرمائی ہے، اور مسلمانوں کے اجتماعی موقف کی مخالفت اور اس سے علیحدگی سے روکا ہے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو کوئی بھی مسلمانوں کی جماعت سے ایک بالشت بھی دور ہو اور اسی حالت میں مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (7143) اور مسلم : (1849) نے روایت کیا ہے۔
  • اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ: (جو شخص بھی مسلمانوں کی جماعت سے ایک بالشت کے برابر بھی دور ہوا تو اس نے اسلام کا کڑا اپنی گردن سے اتار دیا۔) اس حدیث کو ابو داود: (4758) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کی جماعت کا التزام کرنے کا حکم دیا ہے، اور ان شاء اللہ یہ چیز مسلمانوں کے اجماع کے حجت ہونے کی دلیل ہے، اور اسے قبول کرنا لازم ہے۔" ختم شد
"الرسالة" (1/ 403)

ابن قدامہ رحمہ اللہ "روضة الناظر" (1/ 387)میں کہتے ہیں:
"یہ روایات صحابہ اور تابعین کرام کے عہد میں مشہور و معروف رہی ہیں، سلف اور خلف میں سے کسی نے بھی انہیں مسترد نہیں کیا، یہ روایات اکیلی ہوں تو متواتر کی حد تک نہیں پہنچتیں لیکن ان سب کو اکٹھا کریں تو ہمیں یہ علمِ ضروری حاصل ہو جاتا ہے کہ: نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس امت کی شان بیان کی ہے، اور ساری امت کو بیک وقت غلطی سے معصوم قرار دیا ہے۔" ختم شد

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امت کا کسی بھی معاملے پر اجماع یا تو حق ہو گا یا پھر باطل ہو گا، تو اگر یہ اجماع حق ہے تو یہ حجت ہے، اور اگر یہ باطل ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسی امت جو اللہ تعالی کے ہاں اپنے نبی کے زمانے سے لے کر قیامت قائم ہونے تک سب سے اعلی ترین امت ہے وہ کسی گمراہی پر متحد ہو جائے جسے اللہ بھی ناپسند کرتا ہو؟! یہ سب سے بڑا ناممکن ہے۔" ختم شد

"مجموع فتاوی و رسائل ابن عثیمین" (11/ 63)

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android