سائل کا یہ کہنا تو بالکل صحیح ہے کہ علی الاطلاق خطرناک گناہ شرک اکبر ہے، کیونکہ یہ ایسا گناہ ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی سارے کے سارے اعمال ضائع فرما دیتا ہے، اور مشرک شخص مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو اللہ تعالی شرک کبھی معاف نہیں فرمائے گا، اس کے علاوہ کوئی بھی گناہ اللہ تعالی کسی کے لیے بھی معاف فرما سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی اس بات کو معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے، اس کے علاوہ جس کے لیے جو چاہے گا معاف کر دے گا، جو بھی اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک بنائے تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا۔ [النساء: 48]
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمان ہے:
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ: یقیناً آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے تھے وحی کی گئی کہ: اگر آپ سے شرک سر زد ہوا تو آپ کے سارے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔[الزمر: 65]
شرک اکبر چاہے سب سے خطرناک اور حرام ترین گناہ ہے لیکن پھر بھی یہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے، یہ الگ بات ہے کہ کبیرہ گناہوں میں سے علی الاطلاق سب سے بڑا گناہ ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ کے ہاں کون سا گناہ بڑا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک بناؤ حالانکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (4477) اور مسلم : (86) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سات مہلک گناہوں سے بچو!) تو صحابہ کرام نے عرض کیا: مہلک گناہ کون سے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، اللہ تعالی کی طرف سے معصوم قرار دی گئی جان کو قتل کرنا۔ الا کہ شرعی حکم ہو۔ سود خوری، یتیم کا مال ہڑپ کرنا، میدان جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنا، پاکدامن مومن اور عفت والی عورتوں پر تہمت لگانا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6857) اور مسلم : (89) نے روایت کیا ہے۔
جبکہ بدعات کا معاملہ یہ ہے کہ سب کا حکم یکساں نہیں ہے، چنانچہ بدعت کی حکم کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:
کفریہ بدعت اور غیر کفریہ بدعت
الشیخ حافظ حکمی رحمہ اللہ " معارج القبول "(3/1026) میں کہتے ہیں:
"دین میں خلل پیدا کرنے کے اعتبار سے بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعتی شخص کے کافر ہو جانے کا باعث بننے والی بدعت جیسے بدعتِ مُکفّرہ کہتے ہیں، اور دوسری قسم غیر مکفّرہ ہے۔
تو بدعتِ مُکفّرہ کا ضابطہ یہ ہے کہ: جو شخص کسی ایسے شرعی معاملے کا انکار کرے جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو، اور دین میں بدیہی طور پر معلوم بھی ہوں مثلاً: کسی فرض چیز کا انکار کرنا، یا کسی غیر فرض چیز کو فرض قرار دینا، یا حلال کو حرام کہنا، یا حرام کو حلال کہنا، یا نفی یا اثبات کا کوئی ایسا نظریہ رکھنا جس سے ذات باری تعالی، یا اللہ کے رسول، یا کتاب اللہ کو منزہ سمجھنا لازمی ہو؛ کیونکہ ایسی چیز کا نظریہ رکھنے سے کتاب اللہ کی تکذیب ہو گی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہونے والی وحی کی تکذیب ہو گی، مثلاً: جہمی لوگوں کی بدعات ہیں، یہ لوگ اللہ تعالی کی صفات کا انکار کرتے ہیں اور قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل ہیں، یا اللہ تعالی کی کسی بھی صفت کو مخلوق سمجھتے ہیں، جہمی لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا ہو، یا موسی علیہ السلام سے گفتگو کی ہو وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح قدریہ کی بدعت بھی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے علم کا انکار کرتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالی کے افعال، قضا و قدر وغیرہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے ہی مجسمہ کی بدعت ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی کو مخلوق سے مشابہ مانتے ہیں۔ اسی طرح کے دیگر اور بہت سے خود ساختہ نظریات ہیں۔
لیکن ان میں سے کچھ کو پتہ ہو کہ اس کے یہ نظریات اپنانے کا مقصد دینی اصولوں کو منہدم کرنا ہے، مسلمانوں کو اپنے دین پر شکوک و شبہات میں مبتلا کرنا ہے تو ایسا شخص قطعی طور پر کافر ہے، بلکہ ایسے شخص کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور وہ دین کا بد ترین دشمن بھی ہے۔
جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دھوکے میں ہوتے ہیں، انہیں حقیقت کا علم نہیں ہوتا، ایسے لوگوں کو تبھی کافر قرار دیا جائے گا جب ان پر اتمام حجت ہو جائے اور انہیں ان کے نظریات کے لازم کا پتہ چل جائے۔
بدعت کی دوسری قسم: ایسی بدعات جو کہ بدعتی شخص کو کافر نہیں بناتیں، تو اس سے ایسی بدعات مراد ہیں جن سے کتاب اللہ کے کسی حکم کو جھٹلانا لازم نہ آتا ہو، نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہونے والی وحی کو جھٹلانا لازم آتا ہو، مثلاً: مروان کی جانب سے شروع کیے گئے خود ساختہ اعمال جن کی تردید اسی وقت فاضل صحابہ کرام نے کی ، اور اسے تسلیم نہیں کیا، نہ ہی صحابہ کرام نے ان بدعات کے مرتکبین کو کافر قرار دیا، اور اس بدعت کے باوجود مروان سے کی ہوئی بیعت کو توڑا بھی نہیں، مثلاً: کچھ نمازوں کو سرکاری طور پر ان کے آخری وقت میں ادا کرنا، نماز عید سے پہلے خطبہ دینا، جمعہ وغیرہ کے دن خطبہ بیٹھ، منبروں پر کبار صحابہ پر زبان درازی کرنا وغیرہ مروان نے یہ کام کسی شرعی مصلحت یا نظریے کی وجہ سے شروع نہیں کیے تھے، بلکہ ان کا تعلق قلبی چاہت اور دنیاوی مقاصد سے تھا۔" ختم شد
بدعات میں سے بھی کچھ کبیرہ گناہ ہوتی ہیں اور کچھ صغیرہ گناہ ہوتی ہیں، ان دونوں میں تفریق کا ضابطہ یہ ہے کہ بدعت سے جس قدر معتبر دینی بدیہی امور میں خلل پیدا ہو وہ اس قدر کبیرہ گناہ شمار ہو گی۔
علامہ شاطبی رحمہ اللہ " الاعتصام " (2/540) میں کہتے ہیں:
"تمام کے تمام کبیرہ گناہ کسی بھی ملت میں معتبر ضروریات میں خلل پیدا کرنے والے ہوتے ہیں جو کہ یہ ہیں: دین، نفس، نسل، عقل اور مال۔ ان کے علاوہ جن چیزوں کی بھی ضروریات کے طور پر صراحت کی گئی ہے وہ در حقیقت انہی سے تعلق رکھتی ہے، اور جن چیزوں کے متعلق صراحت نہیں کی گئی وہ بھی انہی پانچوں میں سے کسی ایک کا حکم رکھتی ہے۔ اس طرح سے ضروریات کے حوالے سے علمائے کرام کے جو مختلف اقوال ہیں ان سب میں تطبیق پیدا ہو جاتی ہے، اور جن چیزوں کو اس حوالے سے زیر بحث نہیں لایا گیا انہیں بھی ان میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
یہی بات ہم کبیرہ بدعات کے بارے میں کہیں گے: چنانچہ جو بدعت ان ضروریات میں سے کسی ایک میں خلل کا باعث بنتی ہے تو وہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہو گی، اور جو ان ضروریات میں سے کسی ایک میں خلل کا باعث نہیں بنتی تو وہ صغیرہ گناہوں میں شمار ہو گی۔" ختم شد
جبکہ شرک اصغر کا معاملہ یہ ہے کہ اگرچہ اجمالی طور پر شرک اصغر بھی کبیرہ گناہوں میں شامل ہے، لیکن اسے مجموعی طور پر ایسے عملی کبیرہ گناہوں سے بڑا سمجھا جائے گا جس میں کوئی نظریاتی خرابی موجود نہ ہو۔ البتہ مخصوص حالات میں اس کا حکم الگ بھی ہو سکتا ہے۔
سلف صالحین کی ایک بڑی جماعت سے یہ بات منقول ہے کہ شرک اصغر کبیرہ گناہوں سے بڑا ہے، انہوں نے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان کو دلیل بنایا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے تم پر سب سے زیادہ جس گناہ کا خدشہ ہے وہ شرک اصغر ہے۔ صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ شرک اصغر کون سا گناہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ریا کاری۔ یقیناً اللہ تعالی بدلے کے دن لوگوں سے فرمائے گا: تم ان لوگوں سے جا کر اپنے اعمال کا بدلہ لو جن کو دکھانے کے لیے تم دنیا میں نیکیاں کیا کرتے تھے، ان کے پاس جاؤ اور دیکھو کہ کیا تمہیں ان کے پاس اپنے اعمال کا بدلے گا؟) اس حدیث کو امام احمد: (27742) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح الجامع: (1555) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح انہوں نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کو بطور دلیل پیش کیا ہے کہ: " میں غیر اللہ کی سچی قسم اٹھانے کی بجائے یہ پسند کروں گا کہ اللہ کی جھوٹی قسم اٹھا لوں " اس قول کو علامہ منذری نے " الترهيب والترغيب "(4/58) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے "إرواء الغليل " (2562) میں صحیح کہا ہے۔
یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ مخصوص قسم کا شرک اصغر یعنی اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھانا، اس کے ساتھ مذکور خاص گناہ یعنی جھوٹی قسم اٹھانے سے زیادہ سنگین ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جسے شرک اصغر کہا گیا ہے وہ ہر اس گناہ سے بدتر ہے جسے کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ یہ ایک عمومی اصول ہے لیکن اس کا اطلاق ہر حال میں نہیں ہوتا، کیونکہ بعض کبیرہ گناہ ایسے ہوتے ہیں جو شرک اصغر سے بھی بدتر ہیں۔
الشیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا شرک اصغر کبیرہ گناہوں سے بھی بڑا ہوتا ہے؟ اور کیا ایسا ہمیشہ ہوتا ہے یا اس کی کچھ استثنائی صورتیں بھی ہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"الحمدللہ، شرعی نصوص میں واضح صراحت ہے کہ شرک کی دو قسمیں ہیں: اکبر اور اصغر :
شرک اکبر ایمان اور توحید کی بنیاد سے متصادم ہوتا ہے، اس کا مرتکب شخص اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے، اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا، شرک کی وجہ سے مشرک کے تمام اعمال اکارت ہو جائیں گے، اور صحیح موقف یہ ہے کہ یہی وہ گناہ ہے جو بخشا نہیں جائے گا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی اس بات کو معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے، اس کے علاوہ جس کے لیے جو چاہے گا معاف کر دے گا [النساء: 48]
جبکہ شرک اصغر ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ شرک اصغر گناہوں میں سے ایک گناہ ہے لیکن یہ شرک اکبر نہیں ہوتا، اس لیے یہ اسی آیت کے اس حصے میں شامل ہو گا کہ: وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ یعنی اس کے علاوہ جس کے لیے جو چاہے گا معاف کر دے گا۔
شرک اصغر کی متعدد اقسام ہیں:
دل میں معمولی ریا کاری، اس عمل کو شرک اصغر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فرمان میں قرار دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے تم پر سب سے زیادہ جس گناہ کا خدشہ ہے وہ شرک اصغر ہے۔) صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ شرک اصغر کون سا گناہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ریا کاری)
بعض قسم کے شرک اصغر کا تعلق الفاظ سے ہے، مثلاً: غیر اللہ کی قسم اٹھانا، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی تو اس نے شرک کیا۔)
اسی میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان اپنے جملوں میں ذات باری تعالی کا تذکرہ مخلوق کے برابر کر دے، مثلاً: مخاطب سے یہ کہنا کہ: "اگر اللہ اور آپ نہ ہوتے تو نقصان ہو جاتا۔" یا کسی کی تعریف کرتے ہوئے کہنا: "یہ احسان اللہ تعالی اور آپ کی جانب سے ہے۔" اسی طرح چوری سے بچ جائے تو کہا جائے: "اگر ہمارا کتا نہ بھونکتا تو چور پڑ گئے تھے۔" یا یہ کہہ دینا کہ: "ہماری بطخیں نہ ہوتیں تو چور گھر میں داخل ہو جاتے، یعنی بطخوں کے شور سے چور بھاگے۔" یہ الفاظ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ پس تم اللہ کے شریک مت بناؤ حالانکہ تم جانتے ہو۔ [البقرۃ: 22] کی تفسیر میں منقول ہیں۔
اسی طرح کسی شخص کا مخاطب سے یہ کہنا کہ: جو اللہ چاہے اور جو تو چاہے۔
بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ شرک اصغر سلف صالحین کے ہاں کبیرہ گناہوں سے بھی بڑا گناہ ہے، اس کی دلیل سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ: " میں غیر اللہ کی سچی قسم اٹھانے کی بجائے یہ پسند کروں گا کہ اللہ کی جھوٹی قسم اٹھا لوں " کیونکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ اللہ کی جھوٹی قسم اٹھانا یمین غموس میں آتا ہے [اور یمین غموس جہنم میں لے جانے والی ہوتی ہے۔ مترجم] لیکن اس کے باوجود سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے غیر اللہ کی قسم اٹھانے سے ہلکا گردانا ہے۔
اس لیے مجھے جو محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ شرک اصغر بھی کسی ایک درجے میں نہیں ہوتا بلکہ اس میں بھی گناہ اور سنگینی کے اعتبار سے درجہ بندی ہوتی ہے۔
چنانچہ اپنی گفتگو میں "جو اللہ تعالی اور تم چاہو" کہنے سے بڑا گناہ غیر اللہ کی قسم اٹھانا ہے؛ کیونکہ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ کی روایت جو کہ مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آغاز میں کہا کرتے تھے کہ: "جو اللہ تعالی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاہیں" لیکن نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں شروع میں ہی منع نہیں فرمایا بلکہ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا دیکھا ہوا خواب سنایا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو مخاطب کر کے ایسی بات کرنے سے منع فرمایا اور کہا: (تم ایک بات کیا کرتے تھے لیکن مجھے تم کو منع کرنے سے حیا آتی تھی، اب تم یہ نہ کہا کرو کہ: "جو اللہ تعالی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاہیں۔") ایک روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (تم کہا کرو، جو اللہ تعالی چاہے اور اس کے بعد جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاہیں۔) اس حدیث کو مسند احمد کے محققین نے حدیث نمبر: (20694) کے تحت صحیح قرار دیا ہے۔
چنانچہ ظاہر یہی ہوتا ہے کہ سلف صالحین شرک اصغر کے بارے میں جو کہتے ہیں کہ یہ کبیرہ گناہوں سے بڑا ہوتا ہے، ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اسی جنس کے برے اعمال سے وہ بڑا ہوتا ہے، جیسے کہ قسم اٹھانے کا معاملہ ہے کہ غیر اللہ کی قسم اٹھانا اللہ تعالی کی جھوٹی قسم اٹھانے سے بڑا گناہ ہے، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اثر میں منقول ہے۔ ویسے بھی شرک اکبر کی جنس کے گناہ کبیرہ گناہوں سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اب کسی عمل کے متعلق یہ کہنا کہ وہ عمل شرک اصغر ہے اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ تمام کبیرہ گناہوں سے بھی بڑا ہے؛ کیونکہ کبیرہ گناہوں کے متعلق جو وعید اور سخت سرزنش کی گئی ہے وہ شرک اصغر کی کچھ صورتوں میں بیان نہیں کی گئی، جیسے کہ پہلے " جو اللہ تعالی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاہیں۔" کے متعلق تفصیل گزر چکی ہے۔ واللہ اعلم" ختم شد
واللہ اعلم