دین اسلام کی خوبیاں عیاں کرنا لازم ہے، ہمیشہ کوشش میں رہیں کہ اسلام کی بالا دستی قائم کریں، اور بتلائیں کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے ہمہ قسم کی خیر و بھلائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
دینی معاملات میں کوئی ایسا حکم اور رہنمائی ہو سکتی ہے جسے پہلی نظر میں انسان برا سمجھے لیکن غور و فکر کرنے پر سمجھ میں آئے گا کہ اس حکم یا رہنمائی کے مقاصد اور نتائج نہایت شاندار ہیں، ایسا نہیں ہے جیسے پہلی نظر میں محسوس ہوا تھا۔
طہارت اور وضو میں پانی کو فضول ضائع کرنے سے اسلام نے روکا ہے اور اس حوالے دو اعتبار سے گفتگو کی جا سکتی ہے:
ایک پہلو:
اسلام نے بدنی اور قلبی طہارت اور صفائی ستھرائی کی خوب ترغیب دلائی ہے، اسی لیے ہر مومن شخص دن میں پانچ بار وضو کرے تو ایک دن میں پانچ مرتبہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے ، پھر ہر وضو میں ہر عضو کو تین بار دھوتا ہے، تو اس سے اچھی کوئی صفائی ستھرائی نہیں ہو سکتی۔
سنن نسائی: (103) میں سیدنا عبد اللہ صنابحی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب مومن بندہ وضو کرتے ہوئے کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کی کوتاہیاں اس کے منہ سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ ناک جھاڑتا ہے تو ناک کی کوتاہیاں ناک سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ منہ دھوتا ہے تو چہرے کی کوتاہیاں چہرے سے حتی کہ آنکھوں کی پلکوں سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں کی کوتاہیاں اس کے ہاتھوں سے حتی کہ ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کی کوتاہیاں سر سے حتی کہ اس کے کانوں سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں کی کوتاہیاں پاؤں سے حتی کہ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتی ہیں، پھر اس کا مسجد کی طرف چلنا اور اس کی نماز اس کے لیے زائد اجر کا باعث ہوتے ہیں۔)
البانی نے اسے "صحیح سنن نسائی" میں صحیح قرار دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو اور نماز کے ذریعے گناہوں سے پاکیزگی کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے جسمانی میل کچیل سے صفائی ستھرائی کی طرف اشارہ بھی کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم بتلاؤ کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (528) اور مسلم : (667) نے روایت کیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو مثال پیش کی ہے بہت ہی شاندار ہے کہ اس میں وضو اور نماز کے ذریعے گناہوں سے طہارت ملنے کا ذکر ہے اور ساتھ میں پانی کے ذریعے میل کچیل سے حسی صفائی ستھرائی کا تصور بھی۔
دوسرا پہلو:
وضو کرتے ہوئے پانی اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا، اسراف نہ کرنا : اس چیز کو ہم اس انداز سے لے سکتے ہیں کہ اسلام نے ہر چیز میں میانہ روی اور اعتدال اپنانے کا حکم دیا ہے، کسی بھی چیز کو استعمال کرنے کے آداب بیان کیے ہیں، اور بتلایا ہے کہ فضول خرچی سے بچنا ہے، اور اسراف نہیں کرنا، اس طرح جب ہم وضو کرتے ہوئے پانی زیادہ خرچ کرنے پر بات کریں گے تو وہ اسلام کے عمومی اصول اور ضابطے کی روشنی میں کریں گے کہ اسلام ہر معاملے میں غلو سے روکتا ہے اور میانہ روی و اعتدال اپنانے کی تلقین کرتا ہے، انہی تمام امور میں وضو بھی شامل ہے۔
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اللہ تعالی نے اپنی عظیم کتاب میں ایسی آیات نازل فرمائی ہیں جن میں فضول خرچی اور اسراف کا تذکرہ ہے اور ان دونوں سے منع کیا گیا ہے۔ پھر میانہ روی اور اعتدال اپنانے والوں کی تعریف و توصیف بھی بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ اپنے تمام معاملات کھانا، پینا، اور دیگر تمام اخراجات میں میانہ روی اپناتے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔
لہذا اسراف اور فضول خرچی بھی نہیں ہونی چاہیے اسی طرح کنجوسی اور بخیلی بھی نہیں ہونی چاہیے، ایسے ہی غلو نہ ہو تو جفا بھی نہیں ہونی چاہیے۔ تو اللہ تعالی نے تمام امور میں اسی طرح میانہ روی کو ہی شریعت کا حصہ بنایا ہے، لہذا غلو سے بھی منع فرمایا، چنانچہ اہل ایمان کو غلو سے منع کیا گیا ہے، جیسے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنے آپ کو دین میں غلو سے بچاؤ؛ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو نے ہی ہلاک کیا تھا۔)
قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی نے اہل کتاب کو مخاطب کر کے فرمایا: يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ ترجمہ: اے اہل کتاب تم اپنے دین میں غلو مت کرو۔ [النساء: 171] تو یہاں پر اللہ تعالی نے اہل کتاب کو مخاطب فرمایا ہے جس میں در حقیقت ہمیں بھی مخاطب کیا گیا ہے۔ اسی طرح جفا اور کسی کو اس کے حق سے کم دینا بھی منع ہے، بلکہ واجب یہ ہے کہ ہم دوسروں کے حقوق ادا کریں، اور ہمہ قسم کے برے کاموں سے دور ہو جائیں، اور بغیر کسی غلو اور جفا کے نیکیاں کرتے چلے جائیں۔
غلو کسے کہتے ہیں؟ یہ اللہ کی شریعت میں خود ساختہ اضافہ ہے، مثلاً: کوئی شخص وضو کرتے ہوئے شرعی تعداد کا لحاظ نہ رکھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ بار اپنے اعضائے وضو دھوئے، کہ اپنے ہاتھ پاؤں تین بار سے بھی زیادہ مرتبہ دھوئے، تو یہ بھی اللہ کی شریعت میں غلو کی ایک قسم ہے، اسی طرح معاملہ اذان کا ہے، یہی معاملہ اقامت کا ہے، اور یہی معاملہ روزوں اور دیگر عبادات کا ہے۔
تو شریعت میں جس قسم کا بھی اضافہ ہو گا اسے غلو ، افراط، اور بدعت کہیں گے، جبکہ نماز میں کوتاہی برتنا، مکمل انداز سے نماز نہ پڑھنا یہ جفا اور تفریط کہلائے گا۔ اسی طرح خرچ کرتے ہوئے اسراف اور فضول خرچی نہ کی جائے، نہ ہی بخیلی اور کنجوسی سے کام لیا جائے، بلکہ ان کے درمیان میانہ روی اور اعتدال اپنائے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے مطابق سب سے بہترین کام بھی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی کا بھی فرمان ہے کہ: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا [البقرۃ: 143] یعنی ہم نے تمہیں اسی طرح امت اعتدال بنایا ہے۔
تو شریعت نے اپنے تمام امور میں اعتدال کا خیال رکھا ہے، اسی لیے نہ ان میں غلو ہے اور نہ ہی جفا ہے، شرعی احکامات اپنے اندر کسی قسم کا تشدد بھی نہیں رکھتے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: يَابَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ترجمہ: اے بنی آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کیا کرو، کھاؤ، اور پیو، حد سے تجاوز مت کرو؛ کیونکہ وہ اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں فرماتا۔ [الاعراف: 31] تو اللہ تعالی نے یہاں پر زینت اپنانے کا حکم دیا ہے جس میں ستر کو ڈھانپنا بھی شامل ہے، کیونکہ اس طرح انسان خوبصورت لگتا ہے، پھر اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا: وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ترجمہ: تقوی والا لباس ہی بہتر ہے۔[الأعراف: 26]، اور تقوی والا لباس کیا ہے؟ اللہ تعالی پر ایمان اور تقوی الہی یعنی : اللہ تعالی کی اطاعت ، اور رضائے الہی کے موجب کام کرنے کا نام ہے، اسی طرح اللہ تعالی کے حرام کردہ کاموں سے بچنا تقوی ہے، یہ لباس ظاہری لباس سے زیادہ عظیم اور بڑا ہے، اور اسی کو قرآن کریم نے تقوی کا لباس قرار دیا ہے۔
پھر اللہ تعالی نے فرمایا: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا تو یہاں کھانے اور پینے کا حکم دیا؛ کیونکہ اس کے بغیر انسانی صحت اور زندگی باقی نہیں رہ سکتیں؛ کیونکہ کھانا پینا ترک کرنے سے انسان موت کے منہ میں چلا جائے گا، اور اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنا جائز نہیں ہے، بلکہ اتنی مقدار میں کھانا پینا واجب ہے جس سے انسانی صحت قائم رہے، اور انسان اپنی صحت کی حفاظت کر کے ہی معتدل انسان بن سکتا ہے، اور اس کی حالت بہتر رہ سکتی ہے، لہذا کھانے پینے میں اسراف بھی نہیں کرنا؛ کیونکہ بسیار خوری سے بیماریاں جنم لیتی ہیں، اور مختلف دردیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس لیے انسان کو کھانے پینے میں بھی اعتدال سے کام لینا چاہیے، اسی لیے فرمایا: اسراف نہیں کرنا۔
زندگی کے ہر شعبے میں اسراف مذموم چیز ہے، جبکہ مومن زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال پسند رہتا ہے، اور اسی طرح مومن خاتون بھی ہر معاملے میں اعتدال پسند ہوتی ہے۔" مختصراً ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (4 /109-112)
آپ نے ملاحظہ کیا کہ کیسے شریعت نے مسلمانوں کو وضو میں بھی اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کی ترغیب دلائی ہے، اور وضو کے دوران اسی میانہ روی کا خیال انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں میانہ روی اور اعتدال کے ساتھ رہنے پر مجبور کرتا ہے، کیونکہ انسان نے وضو ایک دن اور رات میں پانچ بار کرنا ہے، اور ہر عضو کو تین بار دھونا ہے۔
اس طرح شریعت کی خوبیاں کھلی آنکھوں کے لیے بالکل عیاں ہیں کہ شریعت تو صفائی اور ستھرائی کا اتنا زیادہ حکم دیتی ہے کہ کوئی بھی چیز شرعی چیز سے زیادہ پاک صاف نہ ہو ، اور ساتھ ہی میانہ روی اور اسراف سے بچنے کی صرف تلقین ہی نہیں کرتی بلکہ یہ چیز شریعت کے مبادی اور کلیات میں بھی رچی بسی ہوئی ہے، جس کی بدولت شرعی اصولی امور سے فروعی شرعی امور بھی میں اعتدال اور میانہ روی پائی جاتی ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی اسراف سے بچنے اور اعتدال کے ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم