اول:
مذی نجس ہے اور وضو کو توڑ دینے والی چیز ہے، اس پر تمام علماء کا اجماع ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ مذی اور ودی نجس ہیں۔‘‘ ختم شد
(شرح المہذب 2/571)
آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’ابن المنذر رحمہ اللہ کے مطابق: سب اس بات پر متفق ہیں کہ پاخانہ، پیشاب، مذی اور ہوا کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ ختم شد
(شرح المہذب 2/6)
دوم:
مذی سے طہارت حاصل کرنے کے لیے دو چیزیں لازم ہیں:
- آلہ تناسل اور خصیتین کی مذی لگی ہوئی جگہ کو دھونا؛ کیونکہ مذی نجس ہے، جیسے کہ پہلے وضاحت ہو چکی ہے۔
- جب نماز پڑھنے یا ایسی عبادت کا ارادہ ہو جس کے لیے وضو درکار ہو تو مذی خارج ہونے پر وضو کرنا؛ کیونکہ مذی وضو توڑ دیتی ہے جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (2458) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اب جہاں تک مذی کے اثرات کو دھونے کا تعلق ہے، تو اس میں مذی سے لتھڑے ہوے عضو کو دھونا واجب ہوتا ہے، اور اس میں موزوں پر مسح کی طرح مسح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جیسا کہ ظاہر ہے۔
اور جہاں تک مذی کی وجہ سے وضو کرنے کا تعلق ہے، تو اعادہ وضو عام نواقضِ وضو کی طرح ہوتا ہے؛ چنانچہ اگر کسی نے وضو کی حالت میں موزے پہنے ہوں تو اس کے لیے دوبارہ وضو کرتے وقت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی وجہ سے ان پر مسح کرنا جائز ہے، آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:( نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم سفر میں ہوں تو تین دن اور تین راتوں تک موزے نہ اتاریں، سوائے جنابت کی حالت کے، تاہم پاخانہ، پیشاب اور نیند کی وجہ سے [اتارنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔] ) ترمذی 96، ابن ماجہ 478، وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے اسے ’’ مشكاة المصابيح ‘‘ حدیث نمبر: 520 میں صحیح قرار دیا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موزوں پر مسح وضو توڑنے والے تمام نواقضِ وضو کی وجہ سے جائز ہے؛ جبکہ جنابت ایسی چیز ہے جس سے غسل واجب ہوتا ہے، چنانچہ غسل جنابت واجب ہونے کی صورت میں موزوں پر مسح جائز نہیں۔
واللہ اعلم