مسواک استعمال کرنے کے لیے کوئی مخصوص مدت مقرر نہیں ہے۔ جب تک مسواک اپنا مقصد پورا کر رہی ہو، یعنی منہ کو صاف کر رہی ہو، کھانے کے ذرات اور بد بو کو دور کر رہی ہو، تب تک اس کا استعمال جائز ہے، اور اس کے لیے کوئی معیّن وقت مقرر نہیں کیا گیا۔
لیکن اگر:
- مسواک منہ کی بدبو اور کھانے کے ذرات کو صاف نہ کر رہی ہو،
- اس کا ذائقہ یا خوشبو بدل گئی ہو،
-یا زیادہ پرانی ہونے کی وجہ سے اس کے استعمال سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو
تو ایسی صورت میں یا تو اسے تراش کر نیا کر لینا چاہیے، یا مکمل طور پر تبدیل کر دینا چاہیے۔
"الروض المربع مع زاد المستقنع" میں ذکر ہے:
"مسواک نرم لکڑی کی ہو، چاہے تر ہو یا خشک، مگر نم دار ہو۔ جیسے پیلو ، زیتون، کھجور کی ٹہنی یا کسی اور لکڑی سے بنی ہو، اور وہ منہ کو صاف کرنے والی ہو، نقصان دہ نہ ہو، اور ٹوٹ کر بکھرنے والی نہ ہو۔" ختم شد
ماخوذ از: حاشیہ الروض المربع لابن القاسم: (1/148)
شیخ عبد العزیز بن عبداللہ آل الشیخ کا فتویٰ:
ان سے پوچھا گیا کہ کیا مسواک کی کوئی مدت مقرر ہے؟ یعنی جب اس میں موجود قدرتی ذائقہ ختم ہو جائے تو کیا اسے پھینک دینا چاہیے؟ یا پھر بھی اسے بدستور استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس سے وہی فائدہ اور ثواب حاصل ہو گا؟
انہوں نے جواب دیا:
"اس بارے میں کوئی خاص حد مقرر نہیں۔ جب تک مسواک قابلِ استعمال ہو اور اس سے منہ کی صفائی ہو سکے، اسے استعمال کرنا مشروع ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: (مسواک منہ کو پاک کرنے کا ذریعہ اور اللہ کو راضی کرنے کا سبب ہے۔)"
سنن النسائی، کتاب الطہارة، مسند احمد 6/238، سنن الدارمی: 684
واللہ اعلم۔