اول: مضمضہ (کلی) وضو کا ایک لازمی رکن ہے
وضو میں کلی کرنا واجب ہے، اور اس کی وضاحت (153791) نمبر سوال میں کی گئی ہے۔
دوم: کلی میں مبالغہ کرنا مستحب ہے، لیکن اگر۔۔۔
وضو میں کلی کرتے وقت مبالغہ (یعنی زور سے پانی گھمانا اور منہ کے ہر حصے تک پہنچانا) مستحب ہے، سوائے اس صورت کے جب انسان روزے کی حالت میں ہو۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "وضو کو اچھی طرح کرو، انگلیوں کے درمیان خلال کرو، اور ناک میں پانی کھینچنے میں مبالغہ کرو، مگر جب تم روزے سے ہو تو ایسا نہ کرو۔"
اس حدیث کو ابو داود : (142) اور ترمذی : (788)نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وضو کی سنتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کیا جائے۔ کلی میں مبالغہ کا مطلب یہ ہے کہ پانی کو منہ میں اچھی طرح گھمایا جائے اور اسے پورے منہ تک پہنچایا جائے۔" ختم شد
الشرح الممتع:( 1/171)
لیکن یہ مبالغہ مستحب ہے، واجب نہیں۔ بلکہ اگر کوئی شخص پانی کو بس اپنے منہ میں گھما لے، تو یہ کافی ہو گا۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"مضمضہ (کلی) کا مطلب ہے پانی کو منہ میں گھمانا، اور استنشاق کا مطلب ہے سانس کے ذریعے ناک کے اندر پانی کھینچنا، جبکہ استنثار کا مطلب ہے ناک سے پانی کو باہر نکالنا۔ لیکن عام طور پر استنشاق کو استنثار کے مترادف بھی استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ استنثار استنشاق کا لازمی جزو ہے۔ تاہم، پانی کو پورے منہ میں گھمانا اور اسے حلق تک پہنچانا یا ناک کے بالکل اندرونی حصے تک لے جانا ضروری نہیں، بلکہ یہ مبالغہ مستحب ہے، اور وہ بھی اس وقت جب آدمی روزے سے نہ ہو۔" ختم شد
(المغنی: 1/89)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
"وضو میں واجب صرف یہ ہے کہ پانی کو منہ میں ہلکی سی گردش دے دی جائے، یہی کافی ہے۔" ختم شد
الشرح الممتع:( 1/172)
اس بنا پر:
-وضو میں کلی کرنا واجب ہے، مگر کلی کے دوران پانی کو حلق تک پہنچانا ضروری نہیں۔
-پانی کو پورے منہ میں گھمانا مستحب ہے، مگر ضروری نہیں۔
-روزے کی حالت میں کلی یا ناک میں پانی کھینچنے میں زیادہ مبالغہ نہ کیا جائے، تاکہ پانی اندر نہ چلا جائے۔
واللہ اعلم۔