منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

غسل میں اعضا تسلسل کے ساتھ دھونے کا حکم

سوال

میں نے حیض کے بعد غسل کیا لیکن غسل کے دوران ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑنا بھول گئی، اس کے بعد میں نے اپنے بدن کو کپڑے سے خشک کر لیا، اور مکمل وضو کیا تو کیا غسل کے بعد وضو کرنے سے غسل میں آنے والا نقص پور ا ہو جائے گا؟ اور غسل اور وضو کے درمیان اپنا بدن خشک کر لیتی ہوں کیا یہ غلط ہے؟ اسی وقت میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ میرے دانتوں پر سفید رنگ کا مادہ چڑھا ہوا ہے تو کیا وضو مکمل کرنے کے لیے اس ے بھی ہٹانا لازمی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اہل علم کے راجح موقف کے مطابق کلی، اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑنا وضو اور غسل دونوں میں واجب ہیں، ان کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (88066 ) کے جواب میں گزر چکی ہے۔

دوم:

جس وقت مرد یا عورت حدث اکبر یعنی جنابت یا حیض کی وجہ سے غسل کریں تو غسل کرنے کے بعد وضو کی ضرورت نہیں ہے۔

جیسے کہ صحیح مسلم: (327) میں سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس غسل جنابت کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: (میں تو اپنے سر پر تین چلو ڈال لیتا ہوں)

امام بیہقی رحمہ اللہ (1 / 63)نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے: "باب ہے غسل میں وضو کے داخل ہونے کی دلیل کے بارے میں۔"

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس وقت انسان جنبی ہو جائے تو اس کا غسل وضو سے کافی ہو جائے گا، تاہم دوران غسل کلی اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑ لے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (120/20)

سوم:
غسل میں اعضا کو تسلسل کے ساتھ دھونا واجب ہے؟ اس بارے میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں، جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (11/100 ، 102) میں ہے کہ:
"جمہور فقہائے کرام کے ہاں غسل میں ترتیب اور تسلسل کے ساتھ اعضا دھونا واجب نہیں ہیں۔
جبکہ لیث کہتے ہیں کہ: تسلسل کے ساتھ دھونا لازم ہیں۔
اور امام مالک سے اس بارے میں مختلف روایات ہیں، چنانچہ مالکی فقہائے کرام کے ہاں تسلسل کے وجوب کا قول مقدم رکھا گیا ہے، اسی کے مطابق امام شافعی کے شاگردوں کا موقف ہے۔
چنانچہ جمہور کے موقف کے مطابق : اگر غسل کے ساتھ وضو بھی کرے تو اعضائے وضو کے درمیان ترتیب رکھنا لازم نہیں ہو گا۔ اسی لیے اگر کوئی پورا عضو ہی نہ دھوئے یا تھوڑی سی جگہ خشک رہ جائے چاہے وہ اعضائے وضو میں جگہ خشک ہو یا دیگر اعضا میں تو بعد میں صرف اتنی ہی جگہ کو دھو لے، چاہے درمیان میں وقفہ زیادہ ہو یا تھوڑا، بلکہ اگر غسل کرتے ہوئے سارا جسم دھو لیا وضو کے اعضا نہیں دھوئے تو وہ بعد میں بھی دھو سکتا ہے، ان میں ترتیب سے دھونا لازم نہیں ہے۔

اسی وجہ سے شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں: اگر غسل میں وضو نہ کیا، یا کلی یا ناک میں پانی چڑھا کر نہیں جھاڑا تو یہ عمل اس کے لیے مکروہ ہے، مستحب یہی ہے کہ وہ وضو والے یہ سارے اعمال کرے، چاہے درمیان میں وقفہ لمبا کیوں نہ ہو گیا ہو، تاہم اسے دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ احناف اور حنابلہ کے ہاں تدارک لازم ہے؛ کیونکہ یہ دونوں چیزیں ان کے ہاں غسل میں واجب ہیں وضو میں واجب نہیں ہیں، تو یہ دونوں عمل احناف کے ہاں سنت ہیں واجب نہیں ہیں۔" ختم شد
"الموسوعة الفقهية" (11 / 100-101)

ایسے ہی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"اگر غسل جنابت یا حیض سے غسل کے بعد ناخنوں پر ناخن پالش لگی ہوئی پائے تو کیا اسے دوبارہ غسل کرنا ہو گا؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"حنبلی فقہی موقف کے مطابق اس پر غسل واجب نہیں ہے؛ کیونکہ حنبلی فقہائے کرام کے ہاں غسل میں تسلسل کے ساتھ اعضا دھونا شرط نہیں ہے، لیکن ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ شرط ہے۔ کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اسے وضو میں تو شرط کہیں لیکن غسل میں شرط نہ کہیں؟! اس لیے ایسی عورت کو دوبارہ غسل کرنا ہو گا۔" ختم شد
"ثمرات التدوين" (ص 21)

ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا غسل ٹھیک ہے، بلکہ اگر غسل میں تسلسل قائم رکھنے کو واجب سمجھیں تب بھی آپ کا غسل درست ہے، کیونکہ غسل اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑنے کے عمل میں وقفہ بہت معمولی سا ہے، ممکن ہے کہ دو یا تین منٹ سے زائد نہ ہو، اور اس قسم کا وقفہ تسلسل کو منقطع نہیں کر سکتا۔

چہارم:

دانتوں پر جم جانے والا سفید مادہ اس وقت دانتوں پر جمع ہوتا ہے جب دانتوں کی صفائی صحیح طرح سے نہ ہو۔

اس بارے میں دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"کھانا کھاتے ہوئے کھانے کے کچھ ذرات دانتوں کے درمیان میں پھنس جاتے ہیں اور غسل یا وضو کے دوران ہم انہیں نکال نہیں پاتے، تو کیا ان کے دانتوں میں پھنسے ہوئے ہونے کے باوجود ہمارا وضو اور غسل صحیح ہو گا؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"وضو اور غسل ٹھیک ہے، چاہے دانتوں میں کھانے کے معمولی ذرات پھنسے ہوئے کیوں نہ ہو؛ البتہ افضل یہی ہے کہ دانتوں کو اچھی طرح صاف کیا جائے۔" ختم شد
دائمی فتوی کمیٹی: (5/234)

اس بنا پر آپ کا وضو ٹھیک ہے، تاہم یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے دانتوں کی صفائی کا خصوصی طور پر خیال رکھیں۔

ماخذ: الاسلام سوال و جواب