جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

حج کی وجہ سے کفارہ اور قرضہ کی شکل میں واجب حقوق ساقط نہیں ہوتے

سوال

الحمد للہ مجھے گذشتہ برس فریضہ حج کی ادائیگی کا موقع ملا، اور آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ: "حج مبرور کی جزا صرف جنت ہی ہے" اور جس وقت مسلمان فریضہ حج ادا کر لے تو اپنے کئے ہوئے تمام گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے، اور ایسے واپس لوٹتا ہے جیسے اسکی ماں نے آج اسے جنم دیا ہو، اب میرا سوال یہ ہے کہ : مجھ پر گذشتہ دو سالوں سے رمضان کے روزے ہیں میں نے ابھی تک انکی قضا نہیں دی، تو کیا میرے حج کرنے کے بعد بھی مجھے ان روزوں کی قضا دینا لازمی ہوگا؟ یا اللہ تعالی نے میرے حج کرنے کی وجہ سے سابقہ سارے گناہ معاف کر دئیے ہیں؟ اللہ آپکو جزائے خیر سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

حج کی فضیلت میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، جن میں یہ بات ہے کہ حج کی وجہ سے گناہ دُھل جاتے ہیں، اور انسان ایسے واپس لوٹتا ہے جیسے اسکی ماں نے آج ہی اسے جنم دیا ہو۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (34359) کا مطالعہ کریں

لیکن اس فضیلت اور ثواب کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے واجب حقوق بھی ساقط ہوجائیں گے، چاہے حقوق اللہ ہوں، مثال کے طور پر: کفارہ، نذر، اور غیر ادا شدہ زکاۃ،فوت شدہ روزوں کی قضا وغیرہ، یا حقوق العباد ہوں: مثال کے طور پر قرضہ وغیرہ، چنانچہ حج کی وجہ سے گناہ مٹ جاتے ہیں، لیکن علمائے کرام کے اتفاق کے مطابق  مذکورہ حقوق ساقط نہیں ہوتے۔

چنانچہ جس شخص نے مثال کے طور پر رمضان کے روزوں کی  قضا  بغیر کسی شرعی عذر کے مؤخر کی اور پھر حج مبرور کی سعادت حاصل کرلی  تو اس سے قضا مؤخر کرنے کا گناہ تو ساقط ہوجائے گا، لیکن روزے پھر بھی رکھنے پڑیں گے، روزوں کی قضا ساقط نہیں ہوگی۔

صاحب "كشاف القناع" (2/ 522) کہتے ہیں کہ:
"دمیری کہتے ہیں: صحیح حدیث میں ہے کہ: (جو شخص حج کرے، اور بیہودگی و فسق  سے دور رہے تو گناہوں سے ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے اسکی ماں نے آج جنم دیا ہو) یہ ان گناہوں کے ساتھ مختض ہے جو کہ حقوق اللہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، حقوق العباد سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے حقوق ساقط ہونگے، چنانچہ  جس کے ذمہ حقوق اللہ میں سے نماز، یا کوئی کفارہ وغیرہ باقی تھا  تو وہ اس سے ساقط نہیں ہوگا، کیونکہ  یہ حقوق ہیں گناہ نہیں ہیں، جبکہ ان حقوق کی ادائیگی  میں تاخیر کی وجہ سے گناہ ہو  گا، چنانچہ تاخیر کی وجہ سے ملنے والا گناہ حج کی وجہ سے ساقط ہوجائے گا، لہذا اگر حج کے بعد بھی حقوق کی ادائیگی میں تاخیر کی تو نیا گناہ اسکے ذمہ پڑ جائے گا، اس لئے [یہ بات واضح ہے کہ]حج مبرور گناہ کو ختم کرتا ہے، حقوق کو ختم نہیں کرتا، "مواہب "میں بھی ایسے ہی ہے"انتہی

اور ابن نجیم  رحمہ اللہ  "البحر الرائق" (2/ 364) میں حج کبیرہ گناہوں کے مٹانے کا باعث بن سکتا ہے یا نہیں ، اس تفصیل میں وہ کہتے ہیں کہ:
"نتیجہ یہ  ہے کہ: یہ مسئلہ ظنّی ہے، اور حج کے متعلق حقوق اللہ  میں سے کبیرہ گناہوں کے لئے کفارہ بننے کا قطعی فیصلہ دینا ممکن نہیں ہے، تو حقوق العباد کے بارے میں کیسے دیا جاسکتا ہے!؟، اور اگر ہم یہ کہہ بھی دیں کہ سارے گناہ حج کرنے سے معاف ہوجاتے ہیں، تو اسکا مطلب وہ نہیں ہے جو اکثر لوگ سمجھ بیٹھے ہیں کہ قرضہ بھی معاف ہوجائے گا، اور اسی طرح نمازیں ، روزے اور زکاۃ بھی ساقط ہو جائے گی؛ کیونکہ حدیث کا یہ مفہوم کسی نے بھی نہیں بیان کیا، لہذا اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ : اس سے قرضہ کی ادائیگی  میں ٹال مٹول کی وجہ سے آنے والا گناہ ختم ہوجائے گا، اس لئے وقوفِ عرفہ کے بعدبھی قرضہ ادا نہ کیا، اور ٹال مٹول کرتا رہا تو دوبارہ گناہگار ہو جائے گا، اسی طرح نمازوں کو وقت سے مؤخر کرنے کا گناہ بھی حج کرنے سے ختم ہوجائے گا، قضا ساقط نہیں ہوگی، اسی لئے وقوفِ عرفہ کے بعد نمازوں کی قضا مطلوب ہوگی، اور اگر فورا نمازوں کی قضا نہ دی تو بھی نئے سرے سے گناہ گار ہوگا، اسی پر دیگر مسائل کو قیاس کیا جائے گا، مختصراً یہ ہے کہ: کسی نے بھی حج کی فضیلت میں وارد شدہ حدیث کی بنا پر یہ نہیں کہا کہ [حقوق بھی ساقط ہو جائیں گے]جیسے کہ یہ بات بالکل عیاں بھی ہے"انتہی

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ : آپکو رمضان کے روزوں کی قضا دینا ہوگی، اور آپ قضا دینے کے بعد ہی بری الذمہ ہونگے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات