توکل کرنا اور اس کے لیے اسباب اختیار کرنا

سوال: 130499

ایک بحث اس مسئلے پر ہوئی کہ توکل اور اسباب اختیار کرنے کا آپس میں کیا تعلق ہے، اور بعض نیک لوگوں کا توکل کیسا تھا، جیسے حضرت مریم علیہا السلام کا توکل، جن کے پاس گرمی کے پھل سردیوں میں اور سردیوں کے پھل گرمیوں میں آتے تھے، حالانکہ وہ کوئی ظاہری اسباب اختیار نہیں کرتی تھیں بلکہ عبادت میں مشغول تھیں۔ تو براہِ کرم اس بارے میں ہماری تائید فرمائیں، اللہ آپ کو برکت دے۔

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

’’ توکل دراصل دو امور کو بیک وقت کرنے کا نام ہے:

اول: اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھنا، اور یہ یقین رکھنا کہ وہی اسباب پیدا کرنے والا ہے، اور اسی کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے، اور اس نے تمام امور کو طے فرمایا، ان کا شمار کیا اور انہیں لکھ رکھا ہے، اس کا ہر عمل نقص اور عیب سے پاک اور بلند و بالا ہے۔

دوم: اسباب کو اختیار کرنا۔ چنانچہ توکل کا یہ مطلب نہیں کہ اسباب کو ترک کر دیا جائے، بلکہ توکل کا تقاضا یہ ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے، ان پر عمل کیا جائے۔ اور جو شخص اسباب کو معطل کرے، وہ اللہ تعالیٰ کے شرعی اور کونی فیصلوں کی خلاف ورزی کرتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور پھر انہیں اپنانے کی ترغیب بھی دی ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اسباب اپنانے کا حکم دیا ہے۔

اس لیے مؤمن کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسباب کو ترک کرے، بلکہ حقیقت میں وہی شخص متوکل کہلائے گا جو اسباب اختیار کرے گا۔ اسی لیے نکاح کو مشروع کیا گیا ہے تاکہ اولاد حاصل ہو، اور جماع کا حکم دیا گیا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے: ’’میں نکاح نہیں کرتا اور اولاد کے لیے انتظار کرتا ہوں کہ بغیر شادی کے بچہ ہو جائے‘‘، تو وہ پاگل شمار کیا جائے گا، کیونکہ یہ عقل مندوں کا طرزِ عمل نہیں ہے۔

اسی طرح کوئی شخص مسجد یا گھر میں بیٹھ جائے اور صرف صدقات یا رزق کا انتظار کرے، تو یہ بھی درست نہیں، بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ رزقِ حلال کے لیے سعی و کوشش کرے، محنت کرے اور جدوجہد کرے۔

چنانچہ یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ سیدہ مریم علیہا السلام نے اسباب کو ترک نہیں کیا تھا ؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا:
وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا ترجمہ:  ’’اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ، تاکہ تنا تم پر تازہ کھجوریں گرائے‘‘۔(مریم: 25)

انہوں نے کھجور کا درخت ہلایا اور سبب اختیار کیا، جس کے نتیجے میں کھجوریں گریں۔ لہذا ثابت ہوا کہ انہوں نے بھی اسباب کو ترک نہیں کیا، بلکہ وہ عبادت میں مشغول تھیں اور ساتھ ساتھ اسباب بھی اختیار کر رہی تھیں۔

اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے بعض مؤمن اولیاء کو کچھ کرامات عطا فرما دے، تو یہ اللہ کا فضل ہے، لیکن اس سے اسباب کے ترک کیے جانے پر استدلال نہیں کیا جا سکتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اس چیز کی حرص رکھو جو تمہیں نفع دے، اور اللہ سے مدد مانگو، اور عاجز نہ بنو۔‘‘ صحیح مسلم، حدیث: 2664

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ترجمہ:  ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘ (الفاتحہ: 5) ‘‘ ختم شد

ماخذ: ’’فتاوی نور على الدرب‘‘ از  سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ،   (جلد 1، صفحہ 364)

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android