انسان کی تخلیق کی حکمت

سوال: 129343

میں غیر مسلم لڑکی ہوں، لیکن یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اسلام انسان کی تخلیق کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کیا انسان کی تخلیق کا کوئی خاص مقصد ہے؟ وجود کا مطلب کیا ہے؟ کیا انسان صرف اللہ کی اطاعت کے لیے پیدا کیا گیا ہے؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ ہی انسانوں کا خالق ہے، اور وہی تمام مخلوقات کو تنہا پیدا کرنے والا ہے؛ خواہ وہ چوپائے ہوں، پرندے ہوں، حشرات الارض ہوں، مچھلیاں ہوں یا انسان اور جنات، سب اسی کی مخلوق ہیں۔ اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے مقصد پیدا نہیں کیا، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:
وَما خَلَقْنَا السَّماواتِ وَالأرْضَ وَما بَيْنَهُما لاعِبِينَ ۝ ما خَلَقْناهُما إِلّا بِالْحَقِّ
ترجمہ: ’’اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر نہیں پیدا کیا، ہم نے ان دونوں کو حق کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے۔‘‘ [الأنبياء: 16–17]

اور یہ بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر تمام مخلوقات پر فضیلت دی؛ اسے عقل، سماعت، بصارت اور دل عطا فرمایا، اس کی زبان کو گویائی بخشی، اور یوں اسے باقی مخلوقات پر ممتاز فرمایا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْناهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْناهُمْ مِنَ الطَّيِّباتِ وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا
ترجمہ:  ’’اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی، اور انہیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا، اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت عطا کی۔‘‘[ الإسراء: 70]

پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخلوقات میں ممتاز بنایا ہے، اور جب اسے عقل و شعور اور دل عطا کیے تو اسے اپنی عبادت کا مکلف بھی بنایا۔ انسان جانتا ہے کہ اسے کس نے پیدا کیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ وہ اسی کی عبادت کرے، کیونکہ وہی اس کا رب اور مالک ہے، اور مالک کا اپنے غلاموں پر پورا حق ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا، جیسا کہ فرمایا:
وَما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلّا لِيَعْبُدُونِ
ترجمہ:  ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘[ الذاريات: 56]

اور اس بات کی تردید فرمائی کہ انسان کو یوں ہی پیدا کر دیا گیا ہو جیسے جانور پیدا کیے جاتے ہیں، فرمایا:

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنا لا تُرْجَعُونَ
ترجمہ:  ’’تو کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار پیدا کیا ہے، اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟‘‘[ المؤمنون: 115]  یہ اللہ تعالی کے بارے میں بہت ہی بُرا گمان ہے۔

اسی طرح فرمایا:
أَيَحْسَبُ الْإِنْسانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدىً
ترجمہ:  ’’کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ وہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘[ القيامۃ: 36]  یعنی  اسے کسی کام کو سر انجام دینے یا کسی کام رکنے کا حکم نہیں دیا جائے اور اس پر کسی قسم کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی جائے گی؟

جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز بنایا تو اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اللہ تعالی نے اسے عبادت کا حکم دیا، حرام کاموں سے روکا، پھر  اطاعت پر جنت کا وعدہ فرمایا، اور بتلایا کہ اسے موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اس طرح اسے اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

جو شخص اس پر ایمان لائے گا وہ متقی اور مومن ہو گا، اور جو انکار کرے گا وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا اور دنیا و آخرت میں سزا کا مستحق ہو گا، اور ایسا شخص اپنی ہی جان کو نقصان پہنچائے گا۔

واللہ أعلم

حوالہ جات

ماخذ

فضيلۃ الشيخ عبد اللہ بن جبرين رحمہ اللہ

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android