محفوظ کریں
  • New List
مزید
    محفوظ کریں
    • New List
6,27903/رمضان/1432 , 03/اگست/2011

کیا نماز تراويح شروع كرنے پر تكميل ضرورى ہے؟

سوال: 128165

اگر كوئى مسلمان شخص نماز تراويح شروع كر دے تو كيا اس كے ليے اسے مكمل كرنا ضرورى ہے يا كہ جتنى چاہے ادا كر كےجا سكتا ہے ؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

" بلاشك و شبہ نماز تراويح سنت اور نفلى نماز اور رمضان المبارك كا قيال الليل ہے، اور اسى طرح تہجد كى نماز بھى، اور ايسے ہى چاشت كى نماز اور فرضى نمازوں كے ساتھ سنت مؤكدہ بھى، اور يہ نفل بھى ہيں اگر چاہے تو ادا كرے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے ليكن ان كى ادائيگى افضل و بہتر ہے.

اگر وہ امام كے ساتھ نماز تراويح شروع كرتا ہے اور سارى تراويح مكمل كرنے سے قبل جانا چاہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن امام كے ساتھ ادا كرنے حتى كہ امام تروايح مكمل كر لے افضل و اولى ہے، اور ايسا كرنے پر اس كے ليے سارى رات كے قيام كا اجروثواب لكھا جائيگا.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے امام كے ساتھ قيام كيا حتى كہ امام چلا جائے تو اس كے ليے رات كےقيام كا اجروثواب لكھا جاتا ہے "

لہذا جب وہ امام كے ساتھ سارى تراويح ادا كرنے تك رہے تو سارى رات كے اجروثواب كى فضيلت حاصل ہوگى، اور اگر وہ كچھ ركعات ادا كركے چلا جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ يہ نفلى نماز ہے " انتہى

فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.

حوالہ نمبر

ماخذ

فتاوی سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز – فتاوی نور علی الدرب

ٹیکسٹ فارمیٹنگ کے اختیارات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android