سنتِ نبوی میں اس بات کی صحیح طور پر صراحت موجود ہے کہ شیطان لعین کبھی کبھی روتا ہے۔
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ابن آدم سجدے والی آیت پڑھتا ہے اور سجدہ کرتا ہے تو شیطان ایک طرف ہو کر رونے لگتا ہے اور کہتا ہے: ہائے میری بدبختی! (ابو کریب رحمہ اللہ کی روایت میں ہے: ہائے میری ہلاکت! کے الفاظ ہیں۔) ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا، تو اس نے سجدہ کیا، اور اس کے لیے جنت ہے، اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کیا، اور میرے لیے آگ ہے۔‘‘
یہ حدیث صحیح مسلم (حدیث: 81) میں مروی ہے، اور امام ابن خزیمہ نے بھی اسے اپنی ’’صحیح‘‘ (1/276) میں روایت کیا ہے۔ انہوں نے اس پر یہ باب قائم کیا ہے: ’’سجدۂ تلاوت کے وقت سجدے کی فضیلت، اور شیطان کا رونا، اور سجدہ کرنے والے کے سجدہ کرنے پر شیطان کا خود کو بد دعا دینا۔‘‘
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حدیث میں جو ابلیس کے رونے کا ذکر ہے، وہ اس کی معصیت پر ندامت یا اس سے توبہ کا اظہار نہیں، بلکہ یہ شدید حسد، جلن اور غصے کی وجہ سے ہوتا ہے، کیونکہ اسے تکلیف ہوتی ہے کہ آدم کی اولاد میں سے کوئی جنت میں داخل ہو رہا ہے اور وہ خود جہنم میں جا رہا ہے۔ اسی طرح کی حالت ابلیس کو اذان ، اقامت ، اور یومِ عرفہ کے دن بھی پیش آتی ہے۔ اور شیطان کا یہ کہنا کہ: ’’یا ويلتا‘‘ (ہائے میری ہلاکت) کے بارے میں یہ ہے کہ : لفظ ’’ویل‘‘ عربی میں ہلاکت کے لیے بولا جاتا ہے، اور ’’یا ويلتا‘‘ میں ’’الف‘‘ ندا اور شدتِ افسوس کے اظہار کے لیے ہے۔‘‘ ختم شد
المفهم: (1/274)
خلاصہ یہ ہے کہ یہ بات ثابت شدہ اور صحیح ہے، لہٰذا کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اسے جھٹلانے کی دعوت دے۔ ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ کسی بات سے روکنے یا کسی چیز کی ترغیب دینے سے پہلے تحقیق اور علم حاصل کریں –آپ نے سوال کر کے اسی چیز کا عملی ثبوت دیا ہے– تاکہ آپ کی دعوت بصیرت اور علم کی بنیاد پر ہو۔ کیونکہ صرف جذبات کی شدت یا نیت کا خلوص اس بات کی ضمانت نہیں کہ انسان کا عمل مفید اور قابلِ قبول ہو، بلکہ ضروری ہے کہ انسان متعلقہ امور سے متعلق علم حاصل کرے، اور اہل علم کی راہ کا راہی بنے۔
واللہ اعلم