جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اپنے رشتہ داروں کے ساتھ مالی تعاون کرتا ہے، اور اب اس تعاون کو زکاۃ میں شمار کرنا چاہتا ہے

126075

تاریخ اشاعت : 05-10-2015

مشاہدات : 3145

سوال

سوال: میں اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں پر اپنی سالانہ زکاۃ سے زیادہ خرچ کر دیتا ہوں، اور میں ان سے اپنا مال واپس کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کرتا، تو اس پر مجھے کسی نے کہا ہے کہ : "پھر آپ کو اس کے علاوہ مزید زکاۃ دینے کی ضرورت نہیں ہے، چاہے اپنے رشتہ داروں کو مذکورہ مالی تعاون دیتے ہوئے زکاۃ کی نیت ہو یا نہ ہو" تو اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر آپ کے بھائی اور رشتہ دار غربت یا وسائل کم اور مسائل زیادہ ہونے کی وجہ سے زکاۃ کے مستحق ہیں ، یا مقروض ہیں، تو ایسی حالت میں انہیں زکاۃ کی رقم دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ ان کا خرچہ آپ کے ذمہ نہ ہو، چنانچہ  اگر ان کا خرچہ آپ کے ذمہ بنتا ہے تو آپ اپنا مال بچانے کیلئے انہیں زکاۃ نہیں دے سکتے۔؎

مزید کیلئے دیکھیں:  سوال نمبر: (125720)

دوم:

زکاۃ کی ادائیگی کیلئے زکاۃ ادا کرتے وقت نیت کا ہونا ضروری ہے، چنانچہ اگر آپ نے ان کا مالی تعاون کیا اور اس وقت آپ کی نیت زکاۃ ادا کرنے کی نہیں تھی تو بعد میں اسے زکاۃ میں شمار کرنا درست نہیں ہے۔

زکاۃ کی ادائیگی ایک سال کے گزرنے پر واجب ہو جاتی ہے، اور اقساط کی شکل میں زکاۃ ادا کرنے کیلئے زکاۃ کو وقت سے مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم  ایک یا دو سال کی زکاۃ  پیشگی ادا کی جا سکتی ہے،  اور پیشگی ادائیگی کی صورت میں ماہانہ قسطوں  میں بھی زکاۃ ادا ہو سکتی ہے۔

زکاۃ کی پیشگی ادائیگی کی صورت یوں ہوگی کہ  مثال کے طور پر : اگر زکاۃ ادا کرنے کا وقت ذو الحجہ  کی ابتدا میں ہو  توگزشتہ اور آئندہ دو سالوں کی زکاۃ بیک وقت ادا کر دی جائے، اس طرح اس کی ایک سالہ زکاۃ پیشگی ادا ہو جائے گی، چنانچہ اگر آئندہ سال کی زکاۃ مثال کے طور پر 1000 بنے گی تو یہ ساری رقم پیشگی ادا کر سکتا ہے، اور اسی طرح اس ایک ہزار کو قسطوں کی شکل میں بھی ادا کر سکتا ہے، لیکن جب آئندہ سال ذو الحجہ کا مہینہ آئے تو اس مہینے تک  ایک ہزار زکاۃ کی مد میں نکال چکا ہو، اگر کچھ رقم باقی ہو تو اسے فوری ادا کر دے، تاخیر نہ کرے۔

اسی طرح ماہ ذو الحجہ کے آنے پر اپنا رأس المال بھی چیک کرے، چنانچہ اگر زکاۃ ایک ہزار سے زیادہ بنتی ہو تو وہ بھی فوری طور پر ادا کر دے۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام احمد کا کہنا ہے کہ: "اپنے رشتہ داروں  میں زکاۃ ماہانہ تقسیم مت کرے"، یعنی کہ: زکاۃ ادا کرنے کا وقت آنے کے بعد بھی ماہانہ اقساط کی صورت میں  تقسیم مت کرے، تا ہم اپنے رشتہ داروں یا غیروں میں اگر زکاۃ کا وقت آنے سے پہلے ماہانہ اقساط کی صورت میں تقسیم کرے تو یہ جائز ہے، کیونکہ اس صورت میں زکاۃ وقت سے پہلے ادا کی جا رہی ہے، مقررہ وقت سے مؤخر نہیں ہے" انتہی
"المغنی" (2/290)

دائمی کمیٹی کے علمائے کرام سے استفسار کیا گیا:
"کیا میرے لئے زکاۃ کی پیشگی ادائیگی پورے سال میں ماہانہ اقساط کی شکل میں کرنا جائز ہے؟ یعنی ، میں ہر مہینے غریب گھرانوں میں زکاۃ  کی رقم پیشگی تقسیم کروں، تو کیا یہ جائز ہے؟"

تو کمیٹی کے علمائے کرام نے جواب دیا:
"زکاۃ کا مالی سال مکمل ہونے سے پہلے ایک یا دو سالہ زکاۃ پیشگی ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ایسا کرنے کی ضرورت بھی ہو، نیز زکاۃ پیشگی ادا کرتے ہوئے فقراء میں ماہانہ وظیفہ کی شکل میں بھی تقسیم کی جا سکتی ہے" انتہی
فتاوى اللجنة الدائمة" ( 9 / 422 )

مزید کیلئے سوال نمبر: (52852) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب