جس چیز پر اللہ تعالیٰ کا نام یا ذکر لکھا ہو، اسے لے کر بیت الخلاء میں جانا مکروہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اس سے بچا جائے۔ البتہ اگر ضرورت ہو تو اسے چھپا کر داخل ہونا جائز ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ اپنی کتاب "المغنی" (1/109) میں فرماتے ہیں:
"اگر کوئی شخص ایسی چیز پہنے ہوئے ہو جس پر اللہ تعالیٰ کا ذکر لکھا ہو اور وہ بیت الخلاء میں جانا چاہے، تو اسے اتار دینا مستحب ہے۔ ۔۔البتہ اگر اس کے چوری ہونے کا خدشہ ہو اور حفاظت کی غرض سے اپنے ساتھ رکھے اور حمام میں اسے گرنے نہ دے، یا اگر انگوٹھی ہے تو اس کا نگینہ ہتھیلی کے اندرونی حصے کی طرف پھیر لے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایسی انگوٹھی جس پر اللہ کا نام ہو، اسے اپنی ہتھیلی کے اندرونی حصے کی طرف کر کے بیت الخلاء میں داخل ہو سکتا ہے۔ اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، اور سعید بن المسیب، حسن بصری اور ابن سیرین رحمہم اللہ نے بھی اس کی اجازت دی ہے۔" مختصراً ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
کیا ایسے کاغذات کے ساتھ بیت الخلاء میں داخل ہونا جائز ہے جن پر اللہ کا نام لکھا ہو؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"ایسے کاغذات کو جیب میں رکھ کر بیت الخلاء میں جانا جائز ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہو، بشرطیکہ وہ چھپے ہوئے ہوں، نظر نہ آئیں۔" ختم شد
"فتاویٰ من الطہارۃ": ص 109
اس بنا پر آپ کے لیے اس چھلّے کے ساتھ بیت الخلاء میں جانا جائز ہے بشرطیکہ اس پر لکھا ہوا نام (عبد اللہ) چھلّے کے اندرونی حصے پر ہو اور ظاہر نہ ہو۔
تاہم، یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اگر یہ چھلّا (دِبْلہ) منگنی کی علامت کے طور پر پہنا گیا ہو، تو مسلمان کو ایسا چھلّا نہیں پہننا چاہیے کیونکہ یہ نصاریٰ کی تقلید کے زمرے میں آتا ہے۔ اس مسئلے کی تفصیل سوال نمبر (21441) کے جواب میں پہلے بیان کی جا چکی ہے۔
واللہ اعلم۔