امام مالک رحمہ اللہ کا مختصر تعارف

سوال: 119256

ہم امام مالک کی زندگی کے متعلق جاننا چاہتے ہیں، اور اگر ممکن ہو تو افادۂ عام کے لیے اس کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں بھی کیا جائے ۔

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

امام مالک بن انس رحمہ اللہ کی پیدائش – اکثر اہل علم کے مطابق – 93 ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ نے صحابہ اور تابعین کے آثار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار جگہیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں، جن کے روح پرور مناظر نے آپ کی سوچ، فقہ اور طرزِ زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ مدینہ منورہ چونکہ نور کا سرچشمہ، علم کا مرکز اور معرفت کا منبع تھا، اس لیے اس ماحول نے آپ کی علمی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔

آپ کا نسب یمن کے قبیلے ’’ذو أصبح‘‘ تک پہنچتا ہے۔ آپ کی والدہ کا نام ’’عالیہ بنت شریک‘‘ ہے جو کہ ازد قبیلہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یوں آپ کے والد اور والدہ دونوں یمنی عرب تھے۔

آپ ایک ایسے گھرانے میں پروان چڑھے جو علمِ حدیث سے وابستہ تھا، اور ایک ایسے ماحول میں نشوونما پائی جس کا پورا ماحول حدیث اور سنت کا تھا۔ آپ کے دادا ’’مالک بن ابی عامر‘‘ کبار تابعین میں شمار ہوتے ہیں، اور انہوں نے عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، طلحہ بن عبید اللہ، اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے۔ ان سے ان کے بیٹے انس (جو امام مالک کے والد ہیں)، ربیع، اور نافع (جن کی کنیت ابو سہیل تھی) نے حدیث روایت کی ہے۔ البتہ بظاہر امام مالک کے والد انس حدیث میں زیادہ مشغول نہیں رہے، تاہم آپ کے چچا اور دادا کے علم سے بھر پور استفادہ کیا گیا، اور ان کا علمی مقام اس خاندان کو اہل علم کے معروف گھرانوں میں شامل کرنے کے لیے کافی ہے۔

امام مالک کے بھائیوں میں سے ’’نضر بن انس رحمہ اللہ ‘‘ نے بھی علم کی راہ اختیار کی، اور وہ علماء کی مجلسوں میں جا کر ان سے علم حاصل کیا کرتے تھے۔

امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کا آغاز قرآنِ کریم حفظ کرنے سے کیا، جیسا کہ اُس زمانے کے اکثر دینی گھرانوں کا معمول تھا۔ جب قرآن حفظ مکمل ہوا تو آپ نے حدیث نبوی یاد کرنا شروع کی، اور مدینہ منورہ کے روح پرور ماحول نے اس شوق کو اور مہمیز دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کی فضا، اہل علم کی صحبت، اور دینی ذوق سے لبریز ماحول نے آپ کو علم کی طرف یکسو کر دیا۔جب آپ نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ علم حاصل کرنے جانا چاہتے ہیں، تو انہوں نے آپ کو خوبصورت لباس پہنایا، عمامہ باندھا اور کہا: ’’جاؤ اب علم لکھنے کے لیے نکل جاؤ‘‘۔ وہ یہ بھی کہا کرتی تھیں: ’’ربیعہ رحمہ اللہ کے پاس جاؤ اور ان سے علم حاصل کرنے سے پہلے ادب سیکھو‘‘۔ (المدارک، ص: 115)

امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی ابتدائی علمی زندگی میں مسلسل سات سال تک ابن ہرمز رحمہ اللہ کی صحبت اختیار کی۔ ان کی مجلس سے آپ نے نہ صرف علم حاصل کیا بلکہ اختلافات میں اعتدال، اہلِ بدعت کا رد، اور علمی وقار و سنجیدگی کا انداز بھی سیکھا۔ امام مالک فرمایا کرتے تھے: ’’میں نے ابن ہرمز کو یہ کہتے سنا: عالم کو اپنے شاگردوں کو ’لا أدري‘ (مجھے نہیں معلوم) کہنا سکھانا چاہیے، تاکہ یہ جملہ ان کے نزدیک ایک اصول بن جائے جس کی طرف وہ ہمیشہ رجوع کریں۔ چنانچہ جب ان سے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے جسے وہ نہ جانتے ہوں، تو بے جھجھک کہیں: مجھے نہیں معلوم۔‘‘ امام مالک خود بھی اس اصول کے سختی سے پابند تھے۔ ان کے شاگرد ابنِ وہب بیان کرتے ہیں: ’’امام مالک رحمہ اللہ اکثر سوالات کے جواب میں ’لا أدري‘ فرمایا کرتے تھے۔‘‘

آپ نے نافع رحمہ اللہ (جو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام تھے) کی طویل صحبت اختیار کی۔ آپ کہتے ہیں: ’’میں دوپہر کے وقت نافع رحمہ اللہ کے دروازے پر آتا، اس وقت درختوں کا سایہ بھی نہ ہوتا، میں ان کے باہر آنے کا انتظار کرتا، جب وہ نکلتے تو میں ایسے ظاہر کرتا جیسے میں نے انہیں نہیں دیکھا، پھر کچھ لمحات کے بعد ان کے قریب آ کر سلام کر کے پھر چھوڑ دیتا ، اور جب وہ گھر میں واپس جانے لگتے تو اس وقت کہتا: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فلاں مسئلے میں کیا فرمایا؟ وہ میرے سوال کا جواب دیتے، میں ان کا جواب سن کر پھر رک جاتا، اس طریقے کی وجہ یہ تھی ان کی طبیعت میں کچھ سختی تھی‘‘۔ (الدیباج المذہب، ص: 117)

آپ نے امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے بھی علم حاصل کیا۔ آپ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں عید کے دن حاضر ہوا، سوچا کہ آج ابن شہاب رحمہ اللہ اکیلے ہوں گے، چنانچہ میں نمازِ عید کے بعد ان کے دروازے پر جا بیٹھا۔ تو میں نے انہیں اپنی لونڈی سے یہ کہتے سنا: دیکھو دروازے پر کون ہے۔ اس نے دیکھا اور کہا: آپ کا گورا شاگرد مالک ہے۔ انہوں نے کہا: اسے اندر لے آؤ۔ میں اندر گیا، انہوں نے پوچھا: لگتا ہے تم اپنے گھر واپس نہیں گئے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے پوچھا: کچھ کھایا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: کچھ کھا لو۔ میں نے کہا: مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ پوچھا: پھر کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: آپ مجھے حدیث پڑھائیں۔ انہوں نے کہا: چلو تیار ہو جاؤ۔ میں نے اپنی تختیاں نکالیں، انہوں نے مجھے چالیس احادیث سنائیں۔ میں نے کہا: مزید سنائیے۔ انہوں نے فرمایا: اگر تم نے یہ یاد کر لی ہیں تو تم حفاظ میں شمار ہوتے ہو۔ میں نے کہا: میں نے یاد کر لی ہیں۔ انہوں نے تختیاں کھینچیں اور فرمایا: زبانی سناؤ۔ میں نے زبانی سنائیں، تو انہوں نے واپس کر دیں اور فرمایا: جاؤ، تم علم کے مٹکو میں سے ہو۔‘‘

بعض محدثین کا کہنا ہے کہ: ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بعد لوگوں کے لیے علم کے امام زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے، پھر ان کے بعد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے اکیس افراد نے علم حاصل کیا، اور ان 21 افراد کا علم تین علمائے کرام کے پاس جمع ہوا : ابن شہاب، بکیر بن عبد اللہ، اور ابو الزناد رحمہم اللہ ، اور ان تینوں کا علم امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے پاس آ گیا‘‘۔ (المدارک، ص: 68)

امام مالک رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کا بہت زیادہ ادب کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک بار آپ سے پوچھا گیا: کیا آپ نے عمرو بن دینار رحمہ اللہ سے علم حدیث کا سماع کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’میں نے دیکھا کہ وہ حدیث بیان کر رہے تھے اور لوگ کھڑے ہو کر لکھ رہے تھے، تو مجھے یہ پسند نہ آیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کھڑے ہو کر لکھوں‘‘۔

جس طرح آپ نے علمِ حدیث کے حصول میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اسی طرح آپ نے اس راہ میں مال خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا، یہاں تک کہ ابن القاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’علم کی جستجو میں امام مالک رحمہ اللہ کو یہ نوبت بھی پیش آ گئی کہ انہوں نے اپنے گھر کی چھت ادھیڑ دی اور اس کی کڑیاں نکال کر بیچ دیں، پھر بعد میں دنیا ان کے قدموں میں آ گئی‘‘۔ (المدارک، ص: 115)

جب امام مالک رحمہ اللہ نے حدیث اور فتویٰ کی تعلیم مکمل کر لی تو آپ نے مسجد نبوی میں تدریس کا حلقہ قائم کیا۔ بعض روایات کے مطابق اُس وقت آپ کی عمر صرف سترہ برس تھی۔

امام مالک رحمہ اللہ کے دل میں جب تدریس اور افتا کے لیے امنگ پیدا ہوئی تو اس موقع پر اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہر شخص کو یہ اجازت نہیں کہ وہ مسجد میں بیٹھ کر حدیث سنانے یا فتویٰ دینے لگے، بلکہ ضروری ہے کہ پہلے دیندار اور باوقار علما سے مشورہ کیا جائے۔ اگر وہ اسے اس منصب کے لائق سمجھیں تو ہی اسے بیٹھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ میں خود اُس وقت تک نہیں بیٹھا جب تک ستر جلیل القدر علما نے اس بات کی گواہی نہ دی کہ میں اس ذمہ داری کے قابل ہوں۔‘‘
(المدارک، ص: 127)

آپ رحمہ اللہ مجلسِ حدیث کے لیے خاص طور پر زینت اختیار کرتے، اور اس مجلس کو عظمت و جلال کا ایسا رنگ دیتے جو کسی اور کے ہاں نظر نہ آتا۔ حتیٰ کہ واقدی کہتے ہیں:
’’ان کی مجلس وقار اور علم کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ وہ باوقار اور معزز شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی مجلس میں نہ جھگڑا ہوتا تھا، نہ بے ہودہ بات، نہ ہی آوازیں بلند ہوتیں۔ جب کسی نے کوئی سوال کیا اور امام مالک نے جواب دیا تو سائل سے یہ نہیں پوچھتے تھے: یہ سوال کہاں سے لائے ہو؟‘‘

علم حاصل کرنے کے لیے آپ کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ آپ نے بعض امور کو لازم پکڑا اور بعض سے دوری اختیار کی۔ آپ سنت اور واضح و روشن باتوں کو اختیار کرتے۔ چنانچہ فرمایا کرتے تھے:
’’بہترین کام وہ ہے جو واضح اور روشن ہو۔ اور اگر تمہیں دو امور میں شک ہو تو اس کو اختیار کرو جو زیادہ مضبوط اور قابل اعتماد ہو۔‘‘

آپ صرف انہی مسائل میں فتویٰ دیا کرتے جو بالفعل واقع ہو چکے ہوتے تھے، اپنی رائے کسی پر مسلط نہ کرتے، اس اندیشے سے کہ کہیں گمراہی میں نہ پڑ جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے دور نہ ہو جائیں۔

آپ فتویٰ جاری کرتے ہوئے تحمل، سنجیدگی اور گہری سوچ بچار اختیار کرتے، اور جلد بازی سے گریز کرتے، کیونکہ جلد بازی خطا کا سبب بن سکتی ہے۔ آپ کے شاگرد ابن قاسم کہتے ہیں:
’’میں نے امام مالک کو فرماتے سنا: میں ایک مسئلے میں تقریباً پندرہ برس سے غور کر رہا ہوں، مگر اب تک کوئی واضح رائے نہیں بن سکی۔‘‘

آپ فرمایا کرتے:
’’جو شخص کسی مسئلے کا جواب دینا چاہے تو وہ خود کو جنت اور جہنم کے سامنے تصور کرے، اور یہ دیکھے کہ آخرت میں وہ کس طرح نجات حاصل کرے گا۔‘‘
(الدیباج المذہب، ص: 23)

ایک بار ایک سائل نے آ کر کہا: ’’ایک ہلکا سا مسئلہ ہے۔‘‘ تو آپ غضبناک ہو گئے اور فرمایا:
’’مسئلہ ہلکا اور آسان؟! علم میں کوئی چیز ہلکی نہیں ہوتی۔ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: { إنا سنلقي عليك قولا ثقيلا } ( ترجمہ: یقیناً ہم تم پر ایک بھاری بات نازل کریں گے)؟ علم سارا وزنی ہے، خاص طور پر وہ چیز جس کے متعلق قیامت کے دن سوال ہو گا۔‘‘
(المدارک، ص: 162)

اگرچہ امام مالک رحمہ اللہ فتنے اور بغاوتوں سے دور رہتے تھے اور خود کو علم میں مشغول رکھتے تھے، مگر عباسی دور خلافت میں ابو جعفر منصور کے عہد میں سنہ 146 ہجری میں آپ کو ایک آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس فتنے میں آپ کو کوڑے مارے گئے، اور آپ کے دونوں بازو اتنے سختی سے کھینچے گئے کہ کندھے اتر گئے۔

اس آزمائش کی مشہور وجہ یہ ہے کہ امام مالک اس حدیث کو بیان کیا کرتے تھے:
’’ليس على مستكره طلاق‘‘ (زبردستی کی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی)۔
فتنہ پھیلانے والوں نے اس حدیث کو ابو جعفر منصور کی بیعت کے باطل ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا، کیونکہ اسی وقت محمد بن عبداللہ بن حسن نفس الزکیہ نے مدینہ میں بغاوت کا علم بلند کیا ہوا تھا، اور اسی دوران یہ حدیث زبان زد عام ہو گئی۔ ابو جعفر منصور نے امام مالک رحمہ اللہ کو اس حدیث کے بیان سے روکا، پھر خفیہ طور پر کسی کو آپ کے پاس سوال کے لیے بھیجا، اور آپ نے یہ حدیث لوگوں کے سامنے بیان کر دی۔ چنانچہ مدینہ کے گورنر جعفر بن سلیمان نے آپ کو کوڑے مارے۔ بعض روایات کے مطابق بعد میں خود ابو جعفر منصور نے امام مالک رحمہ اللہ سے معذرت کی اور کہا کہ جو کچھ ہوا وہ ان کی لاعلمی میں ہوا۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد ابو یوسف رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’میں نے تین لوگوں کو سب سے زیادہ علم والا پایا: امام مالک، ابن ابی لیلی، اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ ۔‘‘

عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’حدیث کے وہ امام جن کی اقتدا کی جا سکتی ہے چار ہیں: کوفہ میں سفیان ثوری رحمہ اللہ ، حجاز میں امام مالک رحمہ اللہ ، شام میں امام اوزاعی رحمہ اللہ ، اور بصرہ میں حماد بن زید رحمہ اللہ ۔‘‘

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ہم امام مالک رحمہ اللہ کے مقابلے میں کچھ نہیں ہیں۔ ہم تو بس ان کے علم کی خوشہ چینی کرتے ہیں، اگر کوئی استاد ایسا ہوتا جس سے امام مالک رحمہ اللہ حدیث لکھتے تو ہم بھی اس سے لکھتے… اور مجھے لگتا ہے کہ مدینہ امام مالک بن انس رحمہ اللہ  کی وفات کے بعد ویران ہو جائے گا۔‘‘

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’جب تمہارے پاس امام مالک رحمہ اللہ کی روایت آئے تو اسے مضبوطی سے تھام لو۔۔۔  جب حدیث کا معاملہ آئے تو امام مالک  رحمہ اللہ رہنما ستارہ ہیں، جب علماء کا ذکر ہو تو مالک رحمہ اللہ ہی نجم ہیں۔ کسی نے علم میں امام مالک رحمہ اللہ جیسا مقام نہیں پایا، کیونکہ ان کا حفظ، مہارت اور احتیاط بے مثال تھی۔ جو صحیح حدیث چاہتا ہو، وہ امام مالک رحمہ اللہ  کی طرف رجوع کرے۔‘‘

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مالک رحمہ اللہ اہل علم کے سرداروں میں سے ایک سردار ہیں۔ وہ حدیث اور فقہ دونوں میں امام ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ جیسا کون ہے! وہ سلف صالحین کے علم کے خوشہ چیں، عقل اور ادب کے ساتھ مزین تھے۔‘‘

قاضی عیاض رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’امام مالک رحمہ اللہ نے تقریباً نوے برس زندگی گزاری۔ اس پوری مدت میں تقریباً ستر سال آپ درس حدیث بیان کرتے ، فتویٰ دیتے اور آپ کی بات سنی جاتی رہی۔ آپ کی شان ہر وقت ترقی کرتی گئی، اور ہر دن آپ کی فضیلت اور سیادت میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کئی سالوں سے علمی میدان میں یکتائے زمانہ شمار کیے جاتے رہے، آپ رحمہ اللہ دنیا اور دین دونوں کی قیادت بلا کسی شرکتِ غیرے حاصل کر چکے تھے۔‘‘
(المدارک، ص: 111)

اکثر روایتوں کے مطابق آپ کی وفات سنہ 179 ہجری میں ہوئی۔

اللہ تعالیٰ امام مالک اور تمام ائمہ مسلمین پر اپنی رحمت فرمائے۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: شیخ محمد ابو زہرہ کی کتاب: " مالك حياته وعصره، آراؤه وفقهه "

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android