جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

تعزیت کرنے کا طریقہ کار

سوال

 اسلام میں تعزیت کرنے کا کیا طریقہ ہے، اور ماتم کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

تعزیت تسلی دینے اور اجر کے الہی وعدے کے ساتھ صبر کی تلقین کا نام ہے، اسی طرح تعزیت میں میت اور مصیبت زدہ شخص کے لیے دعا بھی شامل ہوتی ہے۔ فقہائے کرام تعزیت کے بارے میں اسی طرح کی تعریفات ذکر کرتے ہیں انہی میں علامہ ابن مفلح صاحبِ "الفروع" (2/229) بھی شامل ہیں۔

تعزیت کرنے سے مصیبت زدہ شخص کا دل ہلکا ہو جاتا ہے اور پریشانی میں کمی آتی ہے، غم زائل ہو جاتا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ شریعت میں مصیبت زدہ شخص کو دلاسا دینا مستحب قرار دیا گیا؛ تا کہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کا اصل ہدف حاصل ہو، اللہ تعالی کے فیصلوں پر رضا مندی کا اظہار ہو، اور ایک دوسرے کو درست موقف پر ڈٹے رہنے اور صبر کرنے کی تلقین ہو۔

یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنے صحابہ کرام کی تکالیف میں ان کی اشک شوئی کرتے تھے، مسلمان بھی شروع دن سے ایک دوسرے کی تعزیت اور دلاسا دیتے چلے آئے ہیں، مسلمان علمائے کرام بھی تعزیت کے شرعی اور مستحب عمل ہونے پر متفق ہیں۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات واضح رہے کہ تعزیت کا مطلب دوسرے کو صبر دلانا ہے، ایسی باتوں کا ذکر ہے جس سے میت کے وارثوں کو تسلی ہو، ان کا غم ہلکا ہو، اور انہیں اپنی مصیبت پر قابو پانا آسان ہو جائے۔ تعزیت کرنا مستحب عمل ہے؛ کیونکہ اس میں نیکی کا حکم ہوتا ہے اور برائی سے روکا جاتا ہے، بلکہ تعزیت اللہ تعالی کے اس فرمان کا حصہ بھی ہے:  وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى  یعنی: نیکی اور تقوی کے کاموں پر باہمی تعاون کرو۔ [المائدہ: 2] تعزیت کے دلائل میں یہ بہترین دلیل ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ : (اللہ تعالی بندے کی اس وقت تک مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔) " ختم شد
ماخوذ از: "الأذكار" (148-149)

مصیبت زدہ شخص کو جن الفاظ سے بھی تسلی حاصل ہو اور اسے صبر پر آمادہ کرے تو ان سے تعزیت حاصل ہو جاتی ہے کہ انسان کو اس مصیبت پر صبر کر کے اللہ تعالی سے اجر لینے پر آمادہ کر دے۔

جیسے کہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہر وہ چیز جس سے مصیبت زدہ شخص کو صبر ملے تو اسے تعزیت کہا جاتا ہے، چاہے وہ کوئی بھی لفظ کیوں نہ ہو، اس طرح تعزیت کرنے والے کو احادیث میں مذکور اجر و ثواب مل جائے گا۔" ختم شد
"نيل الأوطار" (4/117)

نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے تعزیت کے جو الفاظ منقول ہیں وہ درج ذیل ہیں:
 إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ ، وَلَهُ مَا أَعْطَى ، وَكُلَّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى، فَاصْبِرْ وَاحْتَسِبْ 
ترجمہ: یقیناً اللہ ہی کا ہے جو اس نے لے لیا، اور جو اس نے عطا کیا وہ بھی اسی کا ہے، ہر چیز اس کے پاس لکھے ہوئے ایک مقررہ وقت تک کے لیے ہے، اس لیے تم صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تعزیت کے الفاظ کے لیے سب سے بہترین الفاظ بخاری اور مسلم کی روایت میں ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک صاحبزادی نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا مرض الموت میں ہے، اس لیے میرے پاس تشریف لائیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیغام لانے والے سے فرمایا: تم واپس چلے جاؤ اور اسے بتلا دو  إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ ، وَلَهُ مَا أَعْطَى ، وَكُلَّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ  یعنی: یقیناً اللہ ہی کا ہے جو اس نے لے لیا، اور جو اس نے عطا کیا وہ بھی اسی کا ہے، ہر چیز اس کے پاس لکھے ہوئے ایک مقررہ وقت تک کے لیے ہے، اس لیے تم صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو۔ پھر اس کے بعد انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی ۔

امام نووی رحمہ اللہ پھر کہتے ہیں: اس حدیث میں اسلام کے بہت ہی عظیم اصول اور ضابطے بیان ہوئے ہیں، جو کہ دین کے بنیادی ، فروعی ، آداب سمیت ہمہ قسم کی ناگہانی آفتوں، تکالیف اور بیماریوں پر صبر سے متعلقہ ہیں۔ چنانچہ تعزیت کے الفاظ:   إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ  کا مطلب یہ ہے کہ : یہ سارے کا سارا جہان ہی اللہ تعالی کی ملکیت ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے کوئی ایسی چیز نہیں لی جو تمہاری تھی، بلکہ اس نے اپنی وہ چیز تم سے لی ہے جو تمہارے پاس بطور امانت تھی۔ اسی طرح  وَلَهُ مَا أَعْطَى  کا مطلب یہ ہے کہ: اس نے جو کچھ بھی تمہیں دیا ہے وہ تمہارا نہیں ہو ا، بلکہ وہ اب بھی اسی کی ملکیت میں ہے، اس لیے وہ جو چاہے اس چیز کے ساتھ کرے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔  وَكُلَّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى  کا مطلب یہ ہے کہ: جب ہر چیز کا اس کے پاس ایک مقررہ وقت ہے، تو اس کے جانے پر جزع فزع نہ کرو؛ کیونکہ جو چیز اس نے لے لی ہے اب اس کا وقت ختم ہو چکا تھا، اور وہ چیز مقررہ وقت سے ایک لمحہ بھی کم یا زیادہ اس دنیا میں نہیں گزار سکتی تھی، لہذا جب تمہیں اس چیز کا ادراک ہو گیا ہے تو اب تم صبر کرو اور آنے والی اس مصیبت پر صبر کرو" ختم شد
الأذكار": (150)

جبکہ تعزیت کی جگہ اور کیفیت کے بارے میں کوئی حد بندی بیان نہیں کی گئی، لہذا تعزیت مسجد، راستے یا ملازمت کی جگہ میں ملنے پر کہیں بھی کی جا سکتی ہے، اسی طرح ٹیلیفون کے ذریعے بھی ممکن ہے، ایسے ہی کسی بھی طرح سے پیغام پہنچا کر بھی تعزیت ہو سکتی ہے، گھر جا کر تعزیت کر سکتے ہیں، بلکہ لوگوں کے عرف میں جس چیز کو تعزیت کہا جائے اس طریقے کو اپنا کر تعزیت کی جا سکتی ہے۔

تعزیت کا وقت میت کی وفات سے شروع ہو جاتا ہے، تاہم دفن سے پہلے یا کچھ بعد تک تعزیت کر لینا مستحب ہے، لیکن تعزیت کے لیے 3 دن کی قید نہیں ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تعزیت کا کوئی خاص وقت نہیں ہے، نہ ہی اس کے دن مخصوص ہیں، بلکہ تعزیت تدفین کے وقت اور تدفین کے بعد بھی شرعاً جائز ہے، تاہم مصیبت کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے فوری طور پر تعزیت کرنا افضل ہے، اسی طرح میت کی وفات کے تین دن کے بعد بھی تعزیت ہو سکتی ہے؛ کیونکہ حد بندی کی کوئی دلیل نہیں ہے۔" ختم شد
فتاوى إسلامية" (2/43)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (9/134) میں ہے:
"تعزیت کے لیے کوئی وقت یا جگہ مختص نہیں ہے۔" ختم شد
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب