جملہ ’’اسلام اعتدال والا مذہب ہے‘‘ کا ہمارے زمانے میں استعمال عام ہو چکا ہے اور یہ کلمہ حق ہے جس کا ثبوت قرآن و سنت اور علمائے کرام کے اقوال سے ملتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے لوگ میں ملتے ہیں جنہوں نے اس جملے کا غلط استعمال کیا ہے، اور اس کے ذریعے شرعی احکام کو "کمزور" کرنا چاہتے ہیں، اس جملے کے غلط مفہوم کو استعمال کرتے ہوئے مسلمہ شرعی اصولوں کی بنیادیں ہلانا چاہتے ہیں۔
اس طرح اس جملے کے اب دو استعمال ہیں جن میں سے ایک صحیح ہے اور دوسرا غلط۔
الف۔ جہاں تک اس کے صحیح استعمال کا تعلق ہے: تو اس کی تائید قرآن کریم، سنت مبارکہ اور اہل سنت کے علمائے کرام کے اقوال سے ہوتی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں اس امت کے متعلق "أمة الوسط" کی صفت پائی جاتی ہے، اور یہاں "وسط" سے مراد بہترین اور اعتدال پسند ہے، اور یہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو دو انتہاؤں کے درمیان چلتے ہوں۔
چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو اور ہم نے آپ کے لیے پہلا قبلہ (بیت المقدس) صرف اس لیے بنایا تھا کہ ہم واضح کریں کہ کون ہے جو رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ یہ قبلہ کی تبدیلی ایک مشکل سی بات تھی مگر ان لوگوں کے لیے (چنداں مشکل نہیں) جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ وہ تو لوگوں کے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ [البقرۃ: 143]
امام طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالی نے اس امت کو "امت وسط" قرار دیا ہے ؛ کیونکہ اس امت کے لوگ دینی اعتبار سے بہترین اور معتدل ہیں، لہذا اس امت کے افراد غلو نہیں کرتے چنانچہ یہ عیسائیوں کی طرح دنیا سے لا تعلقی میں غلو کرتے ہوئے رہبانیت نہیں اپناتے، نہ ہی اس امت کے لوگ عیسائیوں کی مثل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام میں غلو کرنے کی طرح اپنے نبی میں غلو کرتے ہیں۔ ایسے ہی امت محمدیہ کے لوگ جرائم کا شکار بھی نہیں ہوتے کہ جیسے یہودیوں نے جرائم کا ارتکاب کیا اور کتاب اللہ کو ہی بدل دیا، انہوں نے انبیائے کرام کو قتل کیا، اللہ تعالی کے متعلق جھوٹے الزامات لگائے، اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا۔ لیکن امت محمدیہ والے اعتدال اور میانہ روی رکھنے والے ہیں، اسی لیے اللہ تعالی نے انہیں اعتدال سے متصف کیا؛ کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں معتدل امور ہی محبوب ترین ہوتے ہیں۔" ختم شد
تفسیر طبری: ( 3 / 142 )
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اسی مفہوم کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اللہ کا دین غلو اور جفا کے درمیان اعتدال پر مبنی ہے، بہترین لوگ بھی وہی ہوتے ہیں جو میانہ روی اختیار کرتے ہیں اور کوتاہی کے ارتکاب سے اپنے آپ کو بلند رکھتے ہیں، اور غلو کرتے ہوئے زیادتی کرنے والوں سے دور رہتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اس امت کو "وسط" قرار دیا ہے، جس کا معنی بہترین اور معتدل ہے؛ کیونکہ یہ امت قابل مذمت دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم ہے۔ اسی لیے "عدل" ظلم اور طرفداری کے درمیانے حصے کو کہتے ہیں۔ آفتیں اور مصیبتیں دو انتہاؤں یعنی کناروں پر آتی ہیں، اور درمیان والے محفوظ ہوتے ہیں۔ اسی لیے بہترین امور وہی قرار پاتے ہیں جو اعتدال پر مبنی ہوں۔
شاعر کا کہنا ہے:
كَانَتْ هِيَ الْوَسَطَ الْمَحْمِيَّ فَاكْتَنَفَتْ ... بِهَا الْحَوَادِثُ حَتَّى أَصْبَحَتْ طَرَفًا
ترجمہ: وہ درمیان میں محفوظ تھی، لیکن اسے حادثات نے اپنی آغوش میں لے لیا حتی کہ درمیان بھی کنارہ بن گیا۔" ختم شد
" إغاثة اللهفان " ( 1 / 182 )
شریعت مطہرہ میں اس اعتدال کی متعدد مثالیں ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
- سورت الفاتحہ میں تمام مسلمان دعا کرتے ہیں: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ . صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ ترجمہ: ہمیں صراط مستقیم پر چلا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام ہوا ، نہ کہ ان کا جو غضب کا شکار ہوئے اور نہ ہی گمراہ لوگوں کا۔ [الفاتحہ: 6 - 7]
یہ دعا تمام مسلمان نماز میں اور غیر نماز میں بھی عموماً پڑھتے رہتے ہیں، اس میں اللہ تعالی سے یہ مانگا گیا ہے کہ اللہ تعالی انہیں ان لوگوں کے راستے پر چلائے جن پر اللہ تعالی کا انعام ہوا ہے اور یہ انبیائے کرام اور صدیقین عظام ہیں۔ نیز انہیں غضب کا شکار ہونے والوں کے راستے سے بھی بچائے کہ جو لوگ یہود کی طرح علم ہونے کے باوجود گمراہ ہو جائیں، اور ان لوگوں کے راستے سے بھی بچائے جو جہالت کی وجہ سے عیسائیوں کی طرح گمراہ ہو جائیں۔
- زکاۃ کی وصولی میں نہ تو بہت اچھا مال لیا جائے گا، اور نہ ہی بالکل گھٹیا قسم کا۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی جانب اپنا گورنر بنا کر بھیجا تو انہیں تاکیدی نصیحت کی تھی کہ: (انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے، جو انہی کے اصحابِ ثروت سے لے کر انہی کے غریب لوگوں کو دی جائے گی، اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو پھر ان کے بہترین مال وصول کرنے سے احتراز کرنا۔)اس حدیث کو امام بخاری: (1425) اور مسلم : (130) نے روایت کیا ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کے فوائد ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: "اس میں یہ بھی ہے کہ زکاۃ کے تحصیل دار کو لوگوں کے اچھے مال بطور زکاۃ وصول کرنے سے منع کیا ہے، اور اسے حکم دیا کہ درمیانے درجے کا جانور وصول کرے۔ اسی طرح مالدار شخص کے لیے گھٹیا چیز اللہ کی راہ میں دینا حرام قرار دیا ہے۔" ختم شد
"شرح صحيح مسلم" از نووی: ( 1 / 197 )
- اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے:
فرمانِ باری تعالی ہے: وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَاماً ترجمہ: اور وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے، اور نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں، بلکہ اس کے درمیان میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ [الفرقان: 67]
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"یعنی: ضرورت سے زیادہ خرچ کر کے فضول خرچی میں مبتلا نہیں ہوتے، نہ ہی اپنے اہل خانہ کے متعلق بخیلی کا شکار ہوتے ہیں کہ اپنی زیر کفالت افراد کے حقوق بھی پورے نہ کریں، بلکہ اعتدال اور میانہ روی سے چلتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہترین امور وہی ہوتے ہیں جو اعتدال پر مبنی ہوں۔ نہ فضول خرچی اور نہ ہی کنجوسی۔ وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَاماً یہ بالکل ایسے ہی جیسے فرمانِ باری تعالی ہے: وَلا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا ترجمہ: اور اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کے ساتھ بندھا ہوا نہ بنا، نہ ہی انہیں بالکل فراخ کر دے تو توں ملامت کیا ہوا اور تھکا ہارا بیٹھ جائے۔ [الاسراء: 29] " ختم شد
" تفسير ابن كثير " (6 /123 ، 124 )
ب- "اسلام اعتدال والا مذہب ہے" جملے کا غلط استعمال ، بعض مفکرین اور دانشوروں کی طرف سے کیا جا رہا ہے یہ لوگ ہر دو متناقض چیزوں کے درمیان کھڑے ہونے کی دعوت دیتے ہیں، اور یہ نہیں دیکھتے کہ دین اور مذہب ان سے کس چیز کا مطالبہ کرتا ہے، مثلاً: سنت اور بدعت کے درمیان کھڑے ہونے کی دعوت دیتے ہیں لہذا ان کے مطابق بدعت سے کلی طور پر اجتناب نہ کیا جائے اور سنت کو کلی طور پر اپنایا نہ جائے! اسی طرح یہ لوگ مرتد پر حکم لگانے کے بارے میں بھی درمیان میں رہنے کی دعوت دیتے ہیں ! کہ ان کا موقف نہ تو مرتد کو توبہ کا موقع فراہم کرنے کا حامی ہے اور نہ ہی اسے قتل کرنے کا! اور نہ ہی ارتداد کو کھلی چھٹی دینے کا حامی ہے! یہ لوگ مکمل طور پر تصوف کو مسترد نہیں کرتے، بلکہ اس قسم کے گمراہ فرقوں کو گمراہ اور تباہ کن نہ کہہ کر اپنے آپ کو معتدل سمجھتے ہیں! بلکہ معاملہ کفر اور اسلام تک بھی پہنچ چکا ہے کہ یہی لوگ ادیان عالم کے مابین ہم آہنگی کے پروگراموں میں وحدت ادیان کے پرچارک بنے ہوئے ہوتے ہیں کہ توحید و شرک کو اور کفر و اسلام کو اکٹھا کر لیا جائے، یہی حال شیعہ اور سنی اتحاد کے قائلین کا ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ یہودیت ، عیسائیت اور اسلام کو ایک بنا دیا جائے۔ ایسے لوگ نہ تو اسلام کی نصرت کرتے ہیں، اور نہ ہی کفر و بدعت کی بیخ کنی کرتے ہیں، ہمیشہ اپنی دینی اقدار سے پہلو تہی اختیار کر کے اپنے ہی دین کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں، مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ میڈیا میں انہیں معتدل قرار دیا جائے، اور انہیں دنیاوی مفادات حاصل ہوں، یہ دنیاوی مفادات انہیں اللہ تعالی کے ہاں کبھی فائدہ نہیں دیں گے، بلکہ انہیں نقصان پہنچائیں گے، اللہ تعالی نے ان میں سے کچھ نامور لوگوں کو ذلیل و رسوا بھی کیا کہ انہیں کچھ کافر ممالک میں داخلے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، حالانکہ اسی شخص نے انہی کافروں کو اپنا "بھائی" قرار دیا ہے تھا، یہیں پر بس نہیں بلکہ اپنے ملک کے کچھ عیسائیوں کو اس نے "شہید" بھی کہا تھا!! چونکہ اس شخص نے اپنے "مبنی بر اعتدال" فتاوی کی وجہ سے دین اسلام کو کمزور کیا، تو اس کی یہ "کاوشیں" دنیا میں بھی کام نہ آئیں، اللہ تعالی نے بہت ہی خوب فرمایا: وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ترجمہ: یہود و نصاری آپ سے کبھی بھی راضی نہیں ہوں گے تا آں کہ آپ ان کے دین کی پیروی کرنے لگ جائیں۔ [البقرۃ: 120]
ان لوگوں کو اور ان جیسے دیگر لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ "وسط" کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہر دو متناقض راستوں کے درمیان میں کھڑا ہوا جائے، بلکہ "وسط" اور اعتدال کا مطلب یہ ہے کہ مومن اپنے تمام تر حالات میں شریعت کا پابند رہے، ہر چیز پر کتاب و سنت کی روشنی میں حکم لگائے، لہذا "اعتدال" اور "وسطیت" دو گمراہیوں اور انتہاؤں کے درمیان چلنے کا نام ہے، اب اگر کوئی شخص اس سے کسی راستے کے درمیان میں کھڑا ہو کر کہے کہ وہ "اعتدال پسند" ہے، چاہے ایک طرف توحید یا سنت ہی کیوں نہ ہو تو یہ باطل اعتدال ہے۔
ابو مظفر سمعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دو مختلف اقوال کے درمیان میانہ روی والا موقف اختیار کرنا مستحب ہے، اس لیے غلو اور جفا کے درمیان والی راہ پر چلنا اچھا عمل ہے۔ تو یہ عمل اولی اس وقت ہو گا جب اس طرح چلنا ممکن ہو، لیکن اگر چلنا ہی ممکن نہ ہو تو پھر نہیں۔" ختم شد
قواطع الأدلة في أصول الفقه" (5/256)
الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: دین میں وسطیت اور اعتدال سے کیا مراد ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:" دین میں میانہ روی وسطیت اور اعتدال یہ ہے کہ انسان غلو اور جفا کے درمیان رہے، اس میں علمی اور عقدی امور بھی شامل ہیں، ایسے ہی عملی اور عبادات بھی شامل ہیں۔
مثلاً: عقدی امور کی مثال لیں تو اللہ تعالی کے اسما و صفات کے متعلق لوگوں کی تین قسمیں ہیں: دو کناروں پر ہیں اور تیسری اعتدال اور وسطیت پر قائم ہے۔ چنانچہ ایک گروہ نے اللہ تعالی کی تنزیہ اور پاکیزگی میں غلو کیا تو اللہ تعالی کے ان ناموں کا بھی انکار کر دیا جو اللہ تعالی نے خود اپنے بتلائے اور رکھے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگوں نے اثبات میں اتنا غلو کیا کہ اللہ تعالی کے لیے وہ تمام اسما و صفات ثابت کیے جو اللہ تعالی نے اپنے بتلائے ہیں لیکن ساتھ ہی مماثلت اور تمثیل کے بھی قائل ہو گئے ۔ جبکہ کچھ لوگ اعتدال اور وسطیت پر کار بند رہے کہ انہوں نے اللہ تعالی کی اپنے لیے ثابت کردہ تمام صفات اور اسما کو ثابت مانا لیکن اس میں مماثلت کے قائل نہیں ہوئے، بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات جیسی کوئی مخلوق نہیں ہے۔
یہ تو مثال ہے کہ عقیدے کے متعلق، عبادات کے حوالے سے بھی اس کی مثال موجو دہے کہ: کچھ لوگ ایسے ہیں جو غلو سے کام لیتے ہیں اور اپنے آپ پر سختی کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ہیں جو سستی کا شکار ہو جاتے ہیں اور کوتاہی میں ملوث ہو جاتے ہیں اور بہت سے خیر و بھلائی کے کام چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ جبکہ بہترین رویہ اعتدال اور میانہ روی کا ہے۔
اب اعتدال اور وسطیت کا ضابطہ یہ ہے کہ: جو کام بھی شریعت نے ہمیں کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیا ہے یہ عین اعتدال پر مبنی ہے۔ اور جو کام بھی شریعت کے مخالف ہے وہ کبھی اعتدال نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ راہ حق سے ہٹا ہوا ہے، اس میں افراط یا تفریط پایا جاتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عقیدہ واسطیہ میں اس حوالے سے پانچ اصول ذکر کیے ہیں، لہذا اگر سائل عقیدہ واسطیہ میں سے متعلقہ مباحث پڑھ لے تو اسے فائدہ ہو گا۔" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب " ( کیسٹ نمبر: 226، بی سائیڈ)
اس حوالے سے مزید کے لیے آپ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ناصر العمر حفظہ اللہ کی کتاب "الوسطیہ" کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
واللہ اعلم