طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیے جانے کی حکمت اور بغیر وجہ کے طلاق دینے کا حکم

سوال: 111881

طلاق کا اختیار صرف مرد کے ہاتھ میں کیوں رکھا گیا ہے؟ اور جو شخص بغیر کسی وجہ کے اپنی بیوی کو طلاق دے دے، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

’’ طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں دیے جانے کی جو حکمت ہے، وہ عدل اور انصاف پر مبنی ہے؛ اس کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:

  1. نکاح کا بندھن مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس بندھن کو توڑنے کا اختیار بھی اسی کو ہونا چاہیے۔ یعنی جس کے ہاتھ میں کسی چیز کا باندھنا ہو، اسی کے ہاتھ میں اس کا کھولنا بھی ہونا چاہیے۔
  2. مرد عورت پر قوام (ذمہ دار و نگہبان) ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ترجمہ:  ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے‘‘ [النساء: 34]  چنانچہ جب مرد کو عورت کا نگران اور قوام بنایا گیا ہے تو طلاق کا معاملہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہونا عدل اور حکمت کا تقاضا ہے۔
  3. مرد کی عقل و فہم اور دور اندیشی عورت کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے وہ طلاق جیسے نازک اور سنگین فیصلے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتا، بلکہ اسی وقت طلاق دیتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ اب اس کے بغیر چارہ نہیں۔ اس کے برخلاف اگر طلاق عورت کے ہاتھ میں ہو تو چونکہ عورت فطرتاً کم عقل، کم تدبیری اور جذباتی ہوتی ہے، ممکن ہے وہ کسی اجنبی کی صورت یا باتوں سے متاثر ہو کر اپنے شوہر کو چھوڑ بیٹھے اور طلاق دے دے۔

یہ تین وجوہات بنیادی حکمتیں ہیں جن کی بنا پر طلاق کا اختیار مرد کو دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر حکمتیں موجود ہیں، مگر یہ سب سے نمایاں اور اہم ہیں۔

جہاں تک بغیر کسی وجہ کے طلاق دینے کا تعلق ہے، تو علما نے فرمایا ہے کہ طلاق کے احکام پانچ مختلف صورتوں پر منقسم ہوتے ہیں:
یعنی یہ پانچ شرعی احکام میں سے کسی ایک کے تحت آ سکتا ہے:

  1. واجب (فرض)
  2. حرام
  3. مستحب
  4. مکروہ
  5. مباح (جائز)

اصل میں طلاق پسندیدہ عمل نہیں ہے، کیونکہ یہ اس بندھن کو توڑتا ہے جس کے قائم کرنے کی شریعت نے ترغیب دی ہے، اور جسے برقرار رکھنے کو باعثِ خیر قرار دیا ہے۔

بعض صورتوں میں طلاق کے بہت سے نقصانات اور مفاسد بھی سامنے آتے ہیں، خصوصاً جب عورت کی شوہر سے اولاد ہو، تو طلاق کے نتیجے میں خاندانی نظام بکھر جاتا ہے اور بہت سے سماجی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان خوشگوار زندگی ممکن نہ ہو، اور دونوں کا اکٹھے رہنا مسلسل جھگڑوں اور اذیت کا سبب بنے، تو ایسی صورت میں طلاق جائز بلکہ باعثِ رحمت ہے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے کہ اس نے ایسی صورت میں طلاق کو جائز رکھا، ورنہ اگر ایسی پریشان کن زندگی کو زبردستی نبھانے پر مجبور کیا جاتا تو دونوں کی زندگی اجیرن بن جاتی۔ ‘‘
ماخوذ از:   ’’فتاوی علماء البلد الحرام‘‘  از فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:  صفحہ: 299-300

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android