جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

طواف کے دوران کیا کہے؟

سوال

یہ کچھ اذکار ہیں جو کسی نے جمع کیے ہیں، ان کا ارادہ تھا کہ اسے عمرہ کرنے والوں میں تقسیم کریں، لیکن پہلے انہوں نے آپ سے رجوع کیا ہے تا کہ صحیح اور ضعیف کا پتہ لگ سکے، ان میں سے کچھ اذکار عمرہ کرنے والوں کے لیے ہیں کہ طواف کے دوران کون سے اذکار پڑھنے ہیں، پہلے چکر میں الحمد للہ اور اللہ تعالی کی تعریف پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود اور پھر دعائیں ذکر کی گئی ہیں، ساتھ ہی دین و دنیا کے لیے مفید دعائیں بھی یک جا جمع کر دی گئی ہیں، ان دعاؤں کے ساتھ حاضر قلبی کے ساتھ پڑھنے کی تلقین بھی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمارے علم کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسے اذکار یا دعائیں وارد نہیں ہیں جو طواف کے دوران پڑھی جائیں، ما سوائے رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ؛ کہ:  رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ، وَّفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ، وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ   ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔
مسند احمد: (3/411) اس روایت کو ابن حبان : (9/134) اور حاکم : (1/625) نے صحیح قرار دیا ہے۔
ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہر حجر کے اسود کے برابر آنے پر تکبیر بھی ثابت ہے۔ جیسے کہ بخاری: (4987) میں موجود ہے۔

جبکہ طواف کے بقیہ حصوں میں طواف کرنے والے کو اختیار حاصل ہے کہ ذکر، دعا، اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہے۔

جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/187)میں کہتے ہیں:
"دوران طواف کثرت سے دعا اور اللہ تعالی کا ذکر کرنا مستحب ہے؛ کیونکہ یہ چیزیں ہر حالت میں مستحب ہیں، لہذا کسی عبادت کے دوران تو بالاولی مستحب ہوں گی، نیز باتیں ترک کر کے ذکر الہی، تلاوت قرآن، نیکی کا حکم دینا، یا غلطی سے روکنا یا کوئی ایسا کام کرنا جسے کیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو ؛ انہیں کرنا مستحب ہے۔" ختم شد

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"طواف کرتے ہوئے کوئی معین ذکر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے مقرر نہیں ہے، نہ تو آپ نے کسی مخصوص ذکر کا حکم دیا ہے نہ ہی آپ کے قول سے ثابت ہے، اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کو کچھ سکھایا ہے۔ چنانچہ طواف کے دوران تمام شرعی دعائیں مانگے۔ بہت سے لوگ میزاب وغیرہ کے نیچے مخصوص دعا کا ذکر کرتے ہیں یہ بے بنیاد بات ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے طواف کے چکر کو رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان  رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ، وَّفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ، وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ   ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دینا میں بھی بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ کہہ کر مکمل کیا کرتے تھے ، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ اپنی دعاؤں کے آخر میں اسی دعا کو پڑھتے تھے۔ لہذا طواف کے دوران کوئی مخصوص واجب ذکر نہیں ہے، اس پر ائمہ کرام کا اتفاق ہے۔" ختم شد

"مجموع الفتاوى" (26/122)

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ وہ جب بھی حجر اسود کے پاس آتے تو رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان کہا کرتے تھے:  رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ، وَّفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً ، وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ  ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دینا میں بھی بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ [البقرة:201]

تاہم طواف کے کسی بھی چکر کے لیے کوئی مخصوص دعا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے، اس بنا پر طواف کرنے والا شخص دوران طواف دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹے ، اللہ تعالی کا کسی بھی شرعی ذکر کے ذریعے ذکر کرے، سبحان اللہ کہے، الحمد للہ کہے، لا الہ الا اللہ کہے، یا اللہ اکبر کہے، یا قرآن کریم کی تلاوت کرے۔" ختم شد

"مجموع الفتاوى" (24/327)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب