جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

بطور فطرانہ آٹا دينا جائز ہے

سوال

كيا انسان آٹے كى شكل ميں فطرانہ ادا كر سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فطرانہ كى ادائيگى ميں اس چيز كى ادائيگى ضرورى ہے جو لوگ بطور غذا استعمال كرتے ہوں، تو اس بنا پر آٹا دينے ميں كوئى حرج نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

آٹا دينا جائز ہے، امام احمد رحمہ اللہ يہى بيان كيا ہے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ( 2 / 357 ).

اور سنن ابو داود ميں ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:

" وہ فطرانہ ميں آٹا ديا كرتے تھے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 418 ) ليكن يہ حديث پايہ ثبوت تك نہيں پہنچتى، بلكہ ضعيف ہے، ابو داود وغيرہ نے اسے ضعيف قرار ديا ہے، ديكھيں: ارواء الغليل حديث نمبر ( 848 ).

حديث ضعيف ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ فطرانہ ميں آٹا دينا جائز نہيں، كيونكہ اس چيز ادائيگى كرنا واجب ہے جسے لوگ بطور خوراك استعمال كرتے ہوں، اسى ليے ابن قيم رحمہ اللہ نے " اعلام الموقعين " ميں مقرركيا ہے كہ: فطرانہ ميں ہر وہ چيز ادا كرنى جائز ہے جسے لوگ بطور خوراك استعمال كرتے ہوں، اس كے بعد لكھتے ہيں:

" اس بنا پر فطرانہ ميں آٹا دينا جائز ہے، اگرچہ صحيح حديث سے يہ ثابت نہيں " انتہى.

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 3 / 12 ).

فطرانہ ميں آٹا دينے كے جواز كا مسلك ابو حنيفہ رحمہ اللہ اور امام احمد كا ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اسے اختيار كيا ہے، اور معاصرين ميں سے شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے راجح كہا ہے.

اور علماء كرام ـ مثلا شيخ الاسلام ابن تيميہ ـ اور ـ المرداوى وغيرہ نے متنبہ كيا ہے كہ: آٹا وزن كے حساب سے دينا ضرورى ہے، يعنى گندم كے صاع كے وزن كے مطابق آٹا ديا جائے، كيونكہ آٹے كے صاع كا وزن گندم كے صاع كے وزن سے كم ہو گا، اس ليے اگر وہ آٹے كا صاع ماپ كر ديتا ہے تو وہ گندم كے صاع سے كم ہے، اور يہ جائز نہيں، لہذا اسے گندم كے صاع كے وزن كے برابر آٹا دينا ہو گا.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميۃ ( 25 / 69 ) اور الانصاف ( 3 / 180 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" تو اگر وہ ايك صاع گندم يا جو كا آٹا ادا كرے تو كفائت كر جائيگا، ليكن آٹا وزن كے مطابق ادا كرنا معتبر ہوگا؛ اس ليے كہ جب دانے پيسے جائيں تو اس كے كئى ايك اجزاء اڑ جاتے ہيں، تو اس طرح آٹے كا صاع دانوں كے صاع سے تقريبا چھٹا حصہ كم ہوگا " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 179 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب