جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پربہتان لگانے والے کا حکم

سوال

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پربہتان لگانے والے کا حکم کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


عائشہ اوردوسری امہات المومنین عمومی طورپرصحابہ کرام میں شامل ہیں توجس نص میں بھی صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم پرسب وشتم سے منع کیا گيا ہے اس میں عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بھی شامل ہیں ذیل میں ہم چند ایک احاديث پیش کرتے ہیں :

ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میرے صحابہ پرسب وشتم نہ کرو اگرتم ميں سے کوئ ایک احدپہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ کے راہ میں خرچ کردے تووہ ان کے ایک مٹھی ( مد ) یا اس کے نصف تک بھی نہیں پہنچ سکتا ) صحیح بخاری دیکھیں فتح الباری حدیث نمبر ( 3379 ) ۔

پھردوسری بات یہ بھی ہے کہ علماء اھل سنت اس پر متفق ہیں کہ جس نے عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا پراس معاملہ میں طعن کیا جس سے اللہ تعالی نے انہیں بری قرار دیا ہے تو وہ شخص کا فر ہے اورسورۃ النور میں اللہ تعالی کی ذکرکردہ برات کی تکذیب ہے ۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی سند سے ھشام بن عمار رحمہ اللہ تک بیان کیا ہے کہ ھشام کہتے ہیں میں نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ تعالی کویہ فرماتے ہوۓ سنا :

جس نے ابوبکر اورعمر رضي اللہ تعالی عنہما پرسب و شتم کیا اسے کوڑے مارے جائيں گے ، اورجس نے ام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پرطعن اورسب وشتم کی اسے قتل کیا جاۓ گا ۔

امام مالک رحمہ اللہ کوکہا گیا کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے بارہ میں قتل کیوں کیا جاۓ گا ؟

انہوں نے جواب دیا ، اس لیے کہ اللہ تعالی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے بارہ میں فرماتے ہیں :

اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم پکے اورسچے مومن ہوتو پھرکبھی بھی ایسا کام نہ کرنا النور ( 17 ) ۔

امام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں اب جس نے بھی ان پربہتان لگایا اس نے قرآن مجید کی مخالفت کی اورجوقرآن مجید کی مخالفت کرتا ہے وہ قتل کیا جاۓ گا ۔

حافظ ابن حزم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ : امام مالک رحمہ اللہ تعالی کا یہاں پریہ قول سوفیصد صحیح ہے اس لیے کہ یہ مکمل ارتداد کےساتھ ساتھ اللہ تعالی کی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارہ میں قطعی برات کی تکذيب بھی ہے ۔

ابوبکرابن عربی کا کہنا ہے کہ :

اس لیے کہ بہتان ترازی کرنے والوں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پر فحاشی کا بہتان لگایا تواللہ تعالی نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کواس سے بری کردیا ، تواب جوبھی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پرسب وشتم اوران پربہتان لگاتا ہے دراصل وہ اللہ تعالی کی تکذیب ہے اورجو اللہ تعالی کی تکذیب کرے وہ کافرہے ، امام مالک اوراہل بصیرت کا بھی یہی راہ ہے ۔

قاضی ابویعلی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اللہ تعالی کی برات نازل ہونے کے بعد جس نے بھی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پربہتان لگایا وہ اتفاقا کا فر ہے ، اوراس حکم پرکئ ایک نے اجماع بھی نقل کیا ہے اوراسی طرح کئ ایک آئمہ نے اس حکم بھی صراحت بھی کی ہے ۔

ابن ابی موسی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بارہ میں اللہ تعالی کی برات نازل ہونے کے بعد جس نے بھی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پربہتان لگایا وہ دین اسلام سے خارج ہے اورکسی مسلمان عورت سے اس کا نکاح نہیں ہوسکتا ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اورام المومنین رضی اللہ تعالی عنہن جو کہ ہرفحش کام سے بری ہیں کے بارہ میں رضی اللہ تعالی عنہا کہنا سنت ہے ، ان میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد ہیں ۔

اورعائشہ صدیقہ بنت صدیق رضي اللہ تعالی عنہ وہ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں منافقوں کے بہتان سے بری قرار دیا ہے اوروہ دنیا آخرت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں اب جوبھی اللہ تعالی کی برات کے بعدان پربہتان لگاۓ اس نے تعالی کے ساتھ کفرکا ارتکاب کیا ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی بہتان سے برات قرآنی نص کے ساتھ قطعی ہے جوبھی اس میں شک کرے وہ مسلمانوں کے اجماع سے کافراور مرتد ہوگا اللہ تعالی اس سے بچا کے رکھے ۔

اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

امت کا پراتفاق ہے کہ جوبھی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پربہتان لگے وہ کافر ہے ۔

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جمیع علماء کرام اس پرمجتمع ہیں کہ جس نے بھی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پرسب وشتم کیا اوراس آیت میں برات کا ذکر ہونے کےباوجود وہ بہتان لگاۓ تو کافر اورقرآن کا دشمن اورکافر ہے ۔

اوربدرالدین زرکشی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :

قرآن کریم میں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی صریحا برات کے باوجود جوشخص عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پربہتان لگاۓ وہ کافر ہے ۔

علماء کرام نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پربہتان لگانے والے کوکافر قرار دینے کی بنیادکئی ایک دلائل ہيں جن میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :

1 - سورۃ النور میں نازل شدہ آيات سےعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی برات پرصریحا استدلال ، تواب اللہ تعالی کے بری کردینے کےبعد جو بھی ان پرتہمت لگاتا ہے وہ اللہ تعالی کی تکذیب کرتا ہے اوراللہ تعالی کی تکذيب کرنے والے کے کفر میں کسی قسم کا کوئ شک نہیں ۔

2 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں طعن تشنیع اوربہتان طرازي میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواذیت ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینا بلاشک وشبہ اجماعا کفر ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواذیت دینا کفر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ پرتہمت لگانا بھی اذیت ہے جس کی دلیل میں امام بخاری رحمہ اللہ الباری اورامام مسلم رحمہ اللہ المنعم نے اپنی اپنی صحیح میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سےحدیث افک نقل کی ہے :

عائشہ رضي اللہ تعالی بیان فرماتی ہيں کہ اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے بارہ میں عذر طلب کررہے تھے اوروہ منبر پر کھڑے ہوکر فرمانے لگے :

اے مسلمانوں کی جماعت کون ہے جو مجھے اس شخص کے بارہ میں کون مجھے معذورجانے گا جس نے مجھے میرے گھر والوں کے متعلق بہت زیا دہ اذیت دی ہے اور اللہ تعالی کی قسم میں نے تواپنی گھر والوں ( بیوی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا مراد ہیں ) کواچھائ‏ اوربھلائ پر ہی پایا ہے ۔۔۔ الحدیث ۔

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ( کون ہے جومیرا عذر مانے گا ) یعنی میرے ساتھ کون انصاف کرے گا اورجب میں اس کے ساتھ انصاف کا معاملہ کروں اس لیے کہ اسے نے مجھے میرے گھروالوں کے بارہ میں بہت ہی زیادہ تکلیف اوراذیت دی ہے ۔

تو اس سے ہمیں یہ علم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بہتان سے اذیت اورتکلیف محسوس کی ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی فرمان باری تعالی اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم پکے اورسچے مومن ہوتو پھرکبھی بھی ایسا کام نہ کرنا النور ( 17 ) کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں :

یعنی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے بہتان کے بارہ میں تم دوبارہ کوئ ایسی بات کرو ، اس لیے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی عزت اورگھروالوں کے بارہ میں اذیت پہنچتی ہے ، اوریہ کام جو بھی کرے وہ کافر ہے ۔

3 - اور یہ بھی کہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا میں طعن وتشنیع اصل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرہی طعن وتشنیع ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں ۔

اس کی تفسیرمیں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہی اس لیے بنایا تھا کہ وہ طیب اورپاکبازتھیں ، اوراس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں میں سے زیادہ پاکباز تھے ، اوراگر عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا پاکباز نہیں تھیں توشرعی طورپروہ نبی صلی اللہ کی زوجیت کے لائق ہی نہیں تھی ۔

پھرآخرمیں ہمیں یہ بھی علم ہونا چاہيۓ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں محبوب ترین شخصیت عائشہ صدیقہ بنت صدیق رضي اللہ تعالی عنہا ہی ہیں جس طری کہ اس کا ذکر عمروبن عاص رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث میں بھی ملتا ہے :

عمرو بن عاص رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ذات السلاسل میں بھیجا وہ کہتے ہیں کہ میں واپس آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :

لوگوں میں سے آپکوسب سے زيادہ محبت کس سے ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ ( رضي اللہ تعالی عنہا ) سے ، میں نے کہا کہ مردوں میں سے کون ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے والد ( ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ) سے ، میں کہا کہ اس کے بعد پھر کون ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمر بن الخطاب ( رضي اللہ تعالی عنہ ) اوربھی کئ آدمی گنے ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3662 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2384 ) ۔

تواب جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب شخصیت سے بغض رکھے وہ اس بات کا زيادہ حق رکھتا ہے کہ وہ روز قیامت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مبغوض ترین شخص ہو ۔

اللہ تعالی ہی سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے ۔

دیکھیں کتاب :

عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام تصنیف : ناصر الشیخ ( 2 / 871 )

اورمحمد الوھیبی کی کتاب : اعتقاد اھل السنۃ فی الصحابـۃ ( ص 58 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال وجواب